پاکستان نے سی پیک سے متعلق مزید شفافیت کا مطالبہ کردیا
بیجنگ: پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ تجارتی انفراسٹرکچر میں تیزی کے ساتھ ہی پاکستان نے اس منصوبے کے بارے میں شفافیت کا مطالبہ کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چین کے بڑے بیلٹ اینڈ روڈ تجاری انفراسٹرکچر کا منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، جس کے ساتھ ہی کچھ ممالک چین کے قرض تلے دب جانے سے متعلق شکایات کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔
بیجنگ کی جانب سے مختلف ممالک کو اربوں ڈالر قرض کی فراہمی کے ساتھ ہی 2013 میں چینی صدر شی جن پنگ کے اعلان کے بعد ’نیو سلک روڈ‘ کے نام سے بھی جانے والے اس منصوبے سے دنیا بھر میں ریلویز، سڑک اور بندرگاہوں کی تعمیر کا امکان تھا۔
مزید پڑھیں: پاک-چین اقتصادی راہداری کے قرض کی ادائیگی کی تیاری
اس منصوبے کے 5 سال تک چینی صدر کی جانب سے اپنے اس خیال کا دفاع کیا گیا کیونکہ اس طرح کے خدشات پیدا ہو رہے تھے کہ چین ایسے ممالک میں قرضوں کے نیٹ ورک قائم کر رہا ہے جس سے واپسی کا امکان مشکل ہوسکتا ہے۔
اس حوالے سے چینی صدر شی جن پنگ نے منصوبے کی سالگرہ کے موقع پر کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ ’چین کلب نہیں ہے‘ بلکہ ’کھلا اور جامع‘ منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت چین کی تجارت 50 کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں 60 ارب ڈالر سے زائد کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری شامل ہے، تاہم کچھ ممالک کی جانب سے لاگت کی واپسی سے متعلق خدشات کا اظہار کردیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ دورہ بیجنگ کے دوران ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ان کا ملک 20 ارب ڈالر کے ریلوے منصوبے سمیت چین کی حمایت سے چلنے والے 3 منصوبوں سے خود کو الگ کردے گا۔
دوسری جانب پاکستان کی نئی حکومت میں منتخب ہونے والے وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اربوں ڈالر کے سی پیک منصوبے سے متعلق چین کے قرضے کی ادائیگی کے لیے اسلام آباد کی صلاحیت کے بارے میں پیدا ہونے والے خدشات پر مزید شفافیت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تحریک اںصاف کی نئی حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی معیشت کی بہتری کے حوالے سے چیلنج کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘سی پیک سے تعلق رکھنے والے منصوبوں پر حکم امتناع جاری نہ کیا جائے‘
ادھرجزیرہ مالدیپ کے جلاوطن اپوزیشن لیڈر محمد نشہید کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو بیجنگ کی جانب سے 80 فیصد قرض دیا گیا ہے جبکہ سری لنکا چین سے لیے گئے قرض کو پہلے ہی ادا کرچکا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جزیرہ ریاست کی جانب سے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے منصوبے کے حوالے سے لیے گئے قرض کی عدم آدائیگی کے باعث اسٹریٹجک بندرگاہ کو 99 برس کے لیے بیجنگ کو لیز پر دیا گیا تھا۔