صدر پاکستان: کبھی طاقتور ترین، کبھی بے اختیار
برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والے پاکستان کو اپنے سیاسی نظام کا ڈھانچہ 1935 کے 'انڈیا ایکٹ' کے تحت بنانا پڑا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف لیا۔
قائد اعظم چاہتے تھے کہ اس منصب سے پاکستان کو ایک ایسا مضبوط جمہوری ڈھانچہ فراہم کیا جائے کہ جس سے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد یہ عہدہ طاقت کی ایک کرسی بن گیا جس کے گرد میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگیا۔ 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہونے کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا اور صدر کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا تھا۔
ملک میں صدارتی و پارلیمانی نظام اور مارشل لا کے ادوار میں اب تک 13 صدور اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور پاکستان کے آئینی سربراہ کے عہدے کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان نے 4 ستمبر 2018 کو ایک بار پھر نئے صدر کا انتخاب کیا۔ ملکی تاریخ میں یہ دوسرا موقع تھا کہ ایک منتخب سول صدر کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے کے بعد اگلی مدت کے لیے نئے صدر کا چناؤ کیا گیا۔
پاکستان کی صدارتی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عروج و زوال سے بھری پڑی ہے جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔