عمران خان اور مائیک پومپیو کی گفتگو، دفتر خارجہ اپنے موقف سے دستبردار
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث دفتر خارجہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ ’ہم اس معاملے کو یہیں ختم کرنا چاہتے ہیں، سیاسی طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ اب آگے دیکھا جائے‘۔
خیال رہے کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کی پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ گفتگو میں دہشت گردی پر بھی بات چیت ہوئی، لیکن پاکستان نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس دوران دہشت گردی پر کوئی بات نہیں ہوئی، اس کے باوجود امریکا اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم،مائیک پومپیو کی گفتگو پر امریکی اعلامیہ حقیقت کے برعکس'
واضح رہے کہ ایک موقع پر ایسا لگ رہا رہا تھا کہ یہ تنازع اس قدر شدت اختیار کر جائے گا کہ اس سے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا دورہ پاکستان بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
لیکن بعد ازاں ایسا محسوس ہوا کہ حکومت چاہتی ہے دورہ خوشگوار ماحول میں وقوع پذیر ہو اور اسی لیے حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی۔
تاہم اس حوالے سے یہ باتیں بھی گردش کررہی ہیں کہ دفتر خارجہ کے اپنے موقف سے دستبردار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے گفتگو کی تحریر جاری کی گئی ہے جس سے پاکستانی موقف غلط ثابت ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی وزیراعظم سے سیکریٹری اسٹیٹ کی گفتگو، امریکا اپنے موقف پر قائم
اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سینٹ اجلاس میں تقریر سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان مزید اس معاملے کو طول نہیں دینا چاہتا، اپنی تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’غلطیاں ہوجاتی ہیں اور ہو گئیں ہیں‘۔
مشترکہ مشقیں
ہفتہ وآر بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نے شنگھائی تعاون تنطیم کے تحت ہونے والی فوجی مشقوں میں پاکستان اور بھارت کے فوجیوں کی شمولیت کا بھی دفاع کیا۔
اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اس اہم تنظیم کا رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان انسدادِ دہشت گردی کے لیے دیگر تمام اراکین کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقیں، سدھو کے مخالفین کو خفت کا سامنا
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ تنظیم کے اراکین کے درمیان تعاون کے فروغ سے شنگھائی تعاون تنطیم کے خطے میں امن و استحکام اور ترقی کے مقصد کو فروغ ملے گا۔
اس دوران ’کرتار پورا‘ راستے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تلخیوں میں کمی لانے کا خواہشمند ہے اور اسی لیے کرتارپورا راستہ کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ 1988 میں دونوں ممالک کے درمیان بھارتی علاقے میں واقع ڈیرہ بابانانک سے پاکستان میں واقع کرتارپورا صاحب ایک راستہ تعمیر کرنے پر اتفاق ہوا تھا، جو سکھ برادری کے لیے مذہبی اہمیت کے حامل مقامات ہیں۔
مزید پڑھیں: سکھوں کو پاکستان سے 'امرت جل' کی برآمد کی اجازت
لیکن پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے باعث اس منصوبے پر تاحال عملدرآمد نہ ہوسکا، اس راستے کی تعمیر کے بعد سکھ یاتری گوردوارا کرتارپورا صاحب تک بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے آسکتے ہیں۔
ابھی تک راستے کی تعمیر نہ ہونے کے سبب سکھ یاتری بارڈر پر لگی باڑ کے ساتھ کرتارپورا کی جانب دیکھتے ہوئے دعائیں وغیرہ کرتے ہیں، جن میں سے کچھ افراد بہتر انداز میں گوردوارا دیکھنے کے لیے دوربین کا بھی استعمال کرتے ہیں۔