کراچی جو اِک شہر تھا (پانچواں حصہ)
یہ اس سیریز کا پانچواں بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا حصہ پڑھیں۔
80ء کی دہائی میں ملیر تک آنے والی بسوں اور ویگنوں کے چند ہی پبلک ٹرانسپورٹ رُوٹس تھے جو روزانہ یہاں کے باسیوں کو شہر کے مختلف خطوں تک لے جاتے اور وہاں سے واپس لاتے تھے۔
ان گاڑیوں میں سب سے اہم کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے ٹی سی) کی بس نمبر ’15A‘ تھی جو کھوکھراپار مہران ہوٹل اسٹاپ سے چلتی تھی اور چمن کالونی، ندی کنارا، کھوکھراپار نمبر 6، 5، 4، 3، 2 اور 1 کے اسٹاپوں پر رکتی ہوئی سعود آباد، ملیر ٹنکی، لال مسجد اور کالا بورڈ سے ہوکر شارع فیصل کے راستے صدر جاتی تھی۔
مجھے یاد نہیں کہ صدر تک اس کا کرایہ کتنا تھا کیونکہ ہم تو اسٹوڈنٹ تھے اور صرف 30 پیسے دیا کرتے تھے۔ دوسری 15 نمبر بس تھی جو سعود آباد گرلز کالج کے سامنے سے چلتی تھی اور لیاقت مارکیٹ، جناح اسکوائر، محبت نگر اور ملیر سٹی سے ہوتی ہوئی صدر جاتی تھی۔ 15 نمبر روٹ کی یہ بس لوگوں کے لئے اتنی اہم تھی کہ جس جگہ سے یہ نیشنل ہائی وے چھوڑ کر اندر ملیر کی طرف مڑتی تھی، اس اسٹاپ کا نام ہی ’ملیر 15‘ پڑگیا۔