دنیا کو پر امن بنانے کیلئے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنا ناگزیر
البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں اپنے دفاع کے لیے بڑھتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کے رجحان نے ہماری سوچ سمیت ہر چیز کو تبدیل کر دیا ہے اور ساتھ ہی ہمیں ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی دوسری جانب صرف ہلاکت ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ حد سے بڑھ کر طاقت کا تصور صرف ایسے لوگوں کو متاثر کرتا ہے جن میں اخلاقی جرات کی کمی ہوتی ہے، میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی امریکی صدر روز ویلٹ کو لکھا گیا وہ خط تھا جس میں اس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ جرمن سائنسدان بہت جلد ایٹم بم بنا لیں گے، اس لیے امریکی حکام کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آئن اسٹائن نے اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ہم بہت آگے جا چکے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کی بدولت جن عالمگیر مسائل نے جنم لیا ہے، ان کا حل صرف اور صرف ہمارے صلح رحمی میں پوشیدہ ہے، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ مستقبل میں اس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنیں گے تو سائنسدان بننے کے بجائے میں گھڑی ساز بننے کو ترجیح دیتا۔
انیسویں صدی کے وسط میں امریکا سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوئے اور وقتا فوقتا ان ممالک کی جانب سے اپنے تیار کردہ ایٹمی ہتھیاروں کو جانچنے کے لیے تجربات بھی کیے جاتے رہے، جن میں سے زیادہ تر خفیہ طور پر نامعلوم مقامات پر کیے گئے جبکہ کئی ممالک نے باقاعدہ اعلان کے ساتھ اپنے ایٹم بم اور دیگر نیو کلیئر ہتھیاروں کے تجربات کیے جس کا مقصد اپنے حریف ممالک کو دبانا اور علاقے میں اپنا تسلط قائم کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت وقت کی اہم ترین ضرورت
تاریخ میں پہلا ایٹمی دھماکہ 16 جولائی 1945 کو امریکا نے جس مقام پر کیا اسے 'ٹرانیٹی سائٹ 'کہا جاتا ہے، اس تجربے میں جو ایٹم بم استعمال کیا گیا وہ 20 ٹن ٹی این ٹی کی طاقت کا تھا، واضح رہے کہ ٹی این ٹی طبیعات میں کسی ایٹمی دھماکے کی شدت کو ظاہر کرنے کی اکائی ہے۔