پاکستان

ملک سے باہر میری کوئی جائیداد نہیں، آصف زرداری کا بیان حلفی

حلفیہ کہتا ہوں پاکستان سے باہر میری کوئی منقولہ یا غیرمنقولہ جائیداد اور کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ہے، آصف علی زرداری

سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ میں قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے خلاف جاری مقدمے میں اپنا بیان حلفی جمع کرا دیا۔

سابق صدر آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ایک صفحے پر مشتمل بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرایا جس میں سابق صدر نے کہا ہے کہ بیرون ممالک میری کوئی جائیداد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ ہے۔

بیان میں حلفی میں انہوں نے کہا ہے کہ ‘حلفیہ کہتا ہوں کہ پاکستان سے باہر میری کوئی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد نہیں اور پاکستان سے باہر میرا کوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے’۔

اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا ہے کہ بیان حلفی میں جو بات کی ہے اس پر قائم ہوں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 29 اگست کو این آر او مقدمے کی سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ لائرز فاؤنڈیشن فار جسٹس کے صدر فیروز شاہ گیلانی نے رواں سال کے اوائل میں سپریم کورٹ میں سابق صدور آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف این آر او کے ذریعے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے حوالے سے درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں:’جو بڑے سمجھتے ہیں وہ پکڑے نہیں جائیں گے ہم انہیں بھی ڈھونڈ نکالیں گے‘

فیروز شاہ گیلانی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ غیر قانونی طریقے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ہے جس کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پہلے سے ہی فیصلے موجود ہیں۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا اور این آر او کا اعلان کیا، جس کے تحت آصف علی زرداری اور دیگر سیاست دانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

یاد رہے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جینیوا کے اٹارنی جنرل کو آصف علی زرداری کے خلاف کرمنل اور سول مقدمات کو کالعدم قرار دینے کے لیے خط لکھا تھا لیکن سپریم کورٹ نے 2009 میں اس حوالے سے فیصلہ سنایا کہ سابق اٹارنی جنرل قیوم نے مراسلہ ذاتی حیثیت میں لکھ کر ارسال کیا تھا جو رولز آف بزنس 1973 کے منافی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے 7 جولائی 2012 کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری سمیت این آر او سے مستفید ہونے والے 8 ہزار 5 سو افراد کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں، آصف زرداری

دوسری جانب آصف علی زرداری نے 26 جون 2018 کو سپریم کورٹ میں مقدمے کے حوالے سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔

جواب میں مزید کہا گیا تھا کہ 2007 میں این آراو کے تحت مقدمات واپس لینے کی اجازت دی گئی تھی۔

تاہم جب عدالت نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو واپس لیے گئے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے تھے جس کے بعد فوجداری مقدمات میں عدالتوں کا سامنا کیا اور رہائی ملی۔

آصف علی زرداری نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ان پرخزانے کولوٹنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔