پاکستان

خاور مانیکا اور ڈی پی او تنازع، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی مذمتی قرار داد

حکومت واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے، قرار داد کا متن
|

خاتون اول بشری بی بی کے سابقہ شوہر خاور فرید مانیکا اور پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) رضوان گوندل کے درمیان ہونے والے تنازع کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں مذمتی قرار جمع کرادی۔

گزشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئیں تھی کہ وزیراعظم عمران خان کی موجودہ اہلیہ کے سابقہ شوہر خاور فرید مانیکا کو روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کا تبادلہ کردیا گیا ہے۔

مذکورہ واقعہ پر مسلم لیگ (ن) کی رکن صوبائی اسمبلی حنا پرویز بٹ نے ایوان میں مذمتی قرار داد جمع کروائی۔

قرار داد میں کہا گیا کہ پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا نعرہ لگانے والی حکومت نے قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں اور پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت کے دعوے دھرے رہ گئے۔

مزید پڑھیں: خاور مانیکا کو روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ؟

اس میں مزید کہا گیا کہ خاتون اول کے سابقہ شوہر خاور مانیکا کی انا کی خاطر ڈی پی او پاکپتن کو عہدے سے ہٹایا گیا، جو انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔

قرار داد میں کہا گیا کہ خاور مانیکا کو پولیس اہلکاروں نے ناکے پر روکا تھا، جس کی رنجش میں ضلع کے انچارج پولیس آفیسر کو خاتون اول کی مداخلت پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے عہدے سے ہٹا دیا۔

حنا پرویز بٹ نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او پاکپتن کو خاور مانیکا سے معذرت کرنے پر مجبور کیا اور ڈی پی او کی جانب سے معذرت نہ کرنے پر انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جانا انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد انتہائی ایماندار، فرض شناس آفیسر اور اہلکاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔

قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ لہذا یہ ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور حکومت اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بنائے جبکہ واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: والدہ کی عمران خان سے شادی کی خبر میں صداقت نہیں،بیٹا بشریٰ مانیکا

گزشتہ روز خاتون اول بشری بی بی کے سابقہ شوہر خاور فرید مانیکا کو روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس ذرائع نے کہا تھا کہ 23 اگست کو پولیس نے پیر غنی روڈ پر خاور مانیکا کو روکنے کا حکم دیا تھا تاہم وہ نہیں رکے تھے۔

بعد ازاں خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف گندی زبان استعمال کی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں‘۔

ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی خاور فرید مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کے اپنے موقف سے آگاہ کردیا تھا۔

جس کے بعد 25 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی تیسری شادی؟کپتان کا ماننے سے انکار

بعد ازاں انسپیکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی پی او کا تبادلہ کسی دباؤ پر نہیں بلکہ واقعے کے متعلق غلط بیانی کرنے پر کیا گیا۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ شہری سے اہلکاروں کی بدتمیزی پر ڈی پی او نے غلط بیانی سے کام لیا، ٹرانسفر آرڈر کو غلط رنگ دینے، سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر رضوان گوندل کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے۔