اگر پاکستان نے جلد ہی اپنی راہیں درست نہ کیں تو 2025 میں یہ 'آبی تناؤ' کے شکار ملک سے 'آبی قلت' کا شکار ملک بن جائے گا۔
پانی ختم ہونے کی وارننگز اقوامِ متحدہ ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) نے علیحدہ علیحدہ طور پر جاری کر رکھی ہیں۔ خطرے کی گھنٹیاں جب بننے لگیں تو پاکستان کے چیف جسٹس نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم بنانے کے لیے مہم کا آغاز کیا۔ اپنی افتتاحی تقریر میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ان کے منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
مگر ظاہر ہے کہ یہ سوالیہ نشان ہے کہ آیا ایک ڈیم پاکستان کے پانی کے مسائل کا حل ہے یا نہیں۔
حقائق پر غور کریں: 1951ء میں پاکستان کو فی کس دستیاب 5260 مکعب میٹر پانی 2016ء میں 1000 مکعب میٹر رہ گیا۔ 2025ء تک یہ صرف 860 مکعب میٹر رہ جانے کا امکان ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کے مطابق پاکستان 'آبی تناؤ' کی لکیر 1990ء میں عبور کر گیا تھا جبکہ 'آبی قلت' کی لکیر یہ 2005ء میں عبور کرچکا ہے۔
دریائے سندھ کے سسٹم میں سالانہ 134.8 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے۔ بارشوں کی سالانہ اوسط 100 ملی میٹر سے بھی کم سے لے کر 750 ملی میٹر تک ہے۔ سطح پر موجود پانی میں 41 فیصد گلیشیئرز کے پگھلنے، 22 فیصد برف پگھلنے اور 27 فیصد بارشوں کی وجہ سے آتا ہے۔
زیرِ زمین پانی کی بات کریں تو فی الوقت پاکستان 50 ملین ایکڑ فٹ پانی زیرِ زمین موجود ذخیروں سے حاصل کر رہا ہے، جو کہ پہلے ہی پائیدار حد سے زیادہ ہے۔ 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے نے پاکستان کو کینال ہیڈ ورکس پر پانی کی دستیابی ڈیموں کے ذریعے 104 ملین ایکڑ فٹ تک بہتر بنانے کی اجازت دی مگر یہ صلاحیت بھی سسٹم میں ریت بھر جانے کی وجہ سے کم ہوچکی ہے۔
پاکستان کے آبی مسائل کو معیار اور مقدار کے مسائل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے سسٹم میں گزشتہ چند دہائیوں میں آنے والا پانی زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے مگر آبادی میں اضافے کی بلند شرح کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ ذخائر کی صلاحیتِ ذخیرہ کم ہو رہی ہے اور اس صورتحال میں یہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہیں کرسکتی۔
اس دوران صارف تک پہنچنے والا پانی بھی راستے میں ہونے والے زیاں کی وجہ سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری واٹر مینیجمنٹ پالیسیاں بھی انتہائی غیر مؤثر ہیں۔ اس کی ایک مثال ہے کہ کس طرح آبپاشی کے لیے تازہ پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ جو فصلیں ہم اگاتے ہیں، مثلاً چاول اور گنّا، اور جس طرح ہم ان فصلوں کی آبیاری کرتے ہیں، دونوں ہی پائیدار نہیں ہیں۔
قیامت صرف 7 سال دور ہے، مگر پاکستان کو پہلی قومی آبی پالیسی (این ڈبلیو پی) بنانے میں 70 سال سے زائد لگے جسے اس سال اپریل میں منظور کیا گیا ہے۔ پالیسی میں ابھی بھی کافی مسائل موجود ہیں مگر کم از کم یہ وہ اصول ضرور متعین کرتی ہے جن پر عمل کرنا چاہیے۔ مگر کچھ صورتوں میں یہ صرف تجاویز کا مجموعہ ہے۔ پانی زندگی، معاشرے اور معیشت کی بنیاد ہے، اس لیے بحران میں کئی کردار شامل ہیں اور کئی حل ایک دوسرے سے مربوط ہونے ہوں گے۔ چنانچہ ہر سطح پر ازِ سر نو غور و خوض کی اشد ضرورت ہے۔
وزارتِ خزانہ کے تیار کردہ اقتصادی سروے آف پاکستان 2018ء-2017ء میں ہماری معیشت کی گزشتہ سال کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا اعلان ہے کہ زرعی شعبے میں 3.5 فیصد کے ترقیاتی ہدف کے برعکس 3.81 فیصد کی ’بے مثال‘ ترقی ریکارڈ کی گئی ہے۔ بلند آبی ضروریات والی فصلوں چاول (8.65 فیصد ترقی) اور گنّے (7.45 فیصد ترقی)، دونوں ہی نے 18ء-2017ء کے لیے اپنے ترقیاتی ہدف عبور کیے ہیں۔
بلند آبی ضروریات والی فصلوں سے حاصل ہونے والی خوش حالی کی وجہ سے کسانوں نے زیادہ چاول اور گنّے کی پیداوار کو ترجیح دی ہے۔
اقتصادی سروے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جہاں گزشتہ سال میں چاول 2724 ہزار ہیکٹر پر کاشت کیا گیا تھا، وہاں رواں سال اس کی کاشت 2899 ہزار ہیکٹر پر ہوئی۔ سروے کے مطابق ’بلند مقامی قیمتوں اور زرعی مواد پر سبسڈیز کی دستیابی اور بہتر مشوروں اور برآمدات میں اضافے‘ کی وجہ سے زیادہ زمین پر چاول اگایا گیا۔ اس 6.4 فیصد کے اضافے کی وجہ سے پاکستان میں اس سال 7442 ہزار ٹن چاول اگایا گیا جو گزشتہ سال 6849 ہزار ٹن تھا۔
سروے میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ گنّا 1313 ہزار ہیکٹر پر کاشت گیا تھا جو گزشتہ سال 1218 ہزار ہیکٹر تھا۔ سروے کے مطابق ’بہتر اقتصادی فوائد اور گزشتہ سال شوگر ملوں کی جانب سے بروقت ادائیگیوں کی وجہ سے کسانوں کی مزید زمین زیرِ کاشت لانے کے لیے حوصلہ افزائی ہوئی۔‘ اس 7.8 فیصد کے اضافے کی وجہ سے پیداوار میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا، یعنی 75.482 ملین ٹن سے بڑھ کر یہ 81.102 ملین ٹن ہوگئی۔
مگر تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے۔
ان فصلوں کو اگانے کے لیے زیادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گنّے کو 1500 سے 2500 ملی میٹر بارش (یا دیگر ذرائع سے پانی) کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ نشونما پاسکے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو ایک کلو گنّا اگانے کے لیے 1500 سے 3000 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح 0.45 کلو فی مکعب میٹر کے اعتبار سے پاکستان میں چاول کی آبی بارآوری ایشیائی ممالک میں اوسطاً فی کلو ایک مکعب میٹر پانی سے 55 فیصد کم ہے۔ یعنی دیگر ممالک ایک کلو پانی سے ہم سے 55 فیصد زیادہ چاول پیدا کرتے ہیں۔
چوں کہ کئی لوگوں کا روزگار زیادہ سے زیادہ چاول اور گنّا اگانے سے جڑا ہوا ہے، اس لیے یہ فصلیں مقبول رہیں گی اور پانی کے زیاں کو روکنے یا آبپاشی کے مؤثر طریقوں کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ زیاں جاری رہے گا۔
پالیسی بمقابلہ حقائق
چنانچہ یہ لازم ہے کہ ایسا ملک جو آبی قلت کے دہانے پر کھڑا ہے، اسے بلند آبی ضروریات والی فصلوں کی کاشت کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس کا عملی مطلب کسانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ اگر وہ دوسری فصلیں اگائیں گے تو انہیں معاشی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
قومی آبی پالیسی میں اعتراف کیا گیا ہے کہ آبپاشی پر منحصر زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور ملکی آبی وسائل کا 95 فیصد اس میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں موجود تقریباً 10 لاکھ ٹیوب ویل زراعت کے لیے 55 ملین ایکڑ فٹ زیرِ زمین پانی نکالتے ہیں جو نہروں سے دستیاب پانی سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زرعی شعبہ کس قدر پانی استعمال کرتا ہے۔ یہ سب ناپائیدار ہے۔
دوسری جانب جہاں دیہی شعبے میں پانی کا زبردست زیاں ہوتا ہے، وہاں شہروں میں پینے کا پانی فراہم کرنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ قومی آبی پالیسی کا ایک نسبتاً قابلِ حصول ہدف تمام افراد تک صاف اور محفوظ پینے کے پانی اور نکاسی آب کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پالیسی نے پانی کی شہری انتظام کاری بہتر بنانے اور پانی کے شہری نرخوں پر نظرِ ثانی پر بھی زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے بقایاجات کی وصولی، سسٹم لاسز کم کرنے، صنعتی فضلے کی ٹریٹمنٹ اور ہر کسی تک پانی کی پائیدار فراہمی پر بھی زور دیا ہے۔
مگر پھر بھی یہ زرعی شعبہ ہے جس کے پانی کے استعمال کا خردبینی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اب تک ایسا لگتا ہے کہ پالیسی کا ان لوگوں کی مالی مجبوریوں سے کوئی تعلق نہیں جن کا روزگار زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔
پاکستان واٹر پارٹنرشپ (پی ڈبلیو پی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پرویز امیر کا ماننا ہے کہ پالیسیاں عوام کے لیے بنائی اور نافذ کی جاتی ہیں، اس لیے ان پر ہونے والی بحثوں میں سول سوسائٹی کو شامل کیا جانا ضروری تھا۔
ڈاکٹر امیر کے مطابق ’بلوچستان پہلے ہی اپنی آبی پالیسی بنا چکا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ اس کام میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن صوبائی آبی پالیسیوں کا ہم آہنگ ہونا نہایت ضروری ہے اور کسی بھی صورت میں انہیں قومی آبی پالیسی سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔‘
ان کے مطابق پانی کی وفاقی وزارت کمزور ہے اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو مضبوط کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پرانے گھوڑوں میں جان ڈالنے کی کوشش کرنے کے بجائے بہتر آپشن ایک نیا ادارہ قائم کرنا ہے جس میں صرف انجینیئر نہیں بلکہ مختلف النوع ماہرین موجود ہوں۔‘
پی ڈبلیو پی کے سربراہ توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آبی پالیسی اس اہم ترین سوال کا جواب نہیں دیتی کہ آبی وسائل آئیں گے کہاں سے۔ سی پیک ایک آپشن ہے۔ چینی پہلے ہی آبی قلت کے شکار گوادر میں اپنے انجینیئروں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے پلانٹ چلا رہے ہیں۔ مگر کیا ایسے اقدامات کا وسیع تر استعمال ہوگا؟
ڈاکٹر امیر کہتے ہیں کہ ’سی پیک کے ذریعے سرمایہ کاریوں میں اضافہ ہوگا اور یہ سوال کہ سی پیک کس طرح آبی ضروریات سے ہم آہنگ ہوگا، اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں طلب اور رسد کی معلومات ہونی چاہیئں۔‘
ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی (ایس پی ایف سی) کے سی ای او طاہر رشید بھی تمام صوبوں، بشمول کشمیر اور گلگت بلتستان میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی عدم موجودگی کا رونا روتے ہیں۔ ان کے مطابق آبی پالیسی کو قومی، علاقائی اور بین الاقوامی معاہدوں، مثلاً پاکستان کے وژن 2025 اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔
رشید کہتے ہیں کہ ’واٹر شیڈز کی مربوط انتظام کاری کو فروغ دیا جانا چاہیے جس میں بالائی علاقوں میں موجود واٹر شیڈز کی ماحولیاتی بقاء بھی شامل ہے۔ ایسا پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدوں کے اطراف موجود آبی ذخائر کی مشترکہ واٹر شیڈ مینیجمنٹ کے امکانات تلاش کرکے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی آبی پالیسی صدیوں آبی انتظام کاری کی صدیوں پرانی روایتی دانش اور رودھ کوئی سسٹم، سیلابہ اور کاریز کے استعمال کی بحالی کے حوالے سے بھی خاموش ہے۔ اس کے علاوہ اسے سرحدوں کے اطراف آبی آلودگی کے پہلو کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے جس پر سندھ طاس معاہدہ تک خاموش ہے۔‘
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے بانی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق بنوری، جو کہ ماحولیات کے سینئر ماہر ہیں اور فی الوقت ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین ہیں، اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان غیر مؤثر استعمال اور برائے نام ری سائیکلنگ کے ذریعے اپنے آبی وسائل ضائع کر رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا قومی آبی پالیسی اس قیمتی وسیلے کے بے دریغ زیاں کا مسئلہ حل کرسکے گی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نظام غیر مؤثر ہیں۔ قومی آبی پالیسی پانی سے متعلق کافی سارے مسائل کا احاطہ کرتی ہے مگر اس میں وہ تفصیلات موجود نہیں جو اس پالیسی کو نافذ العمل لانے میں مددگار ثابت ہوں۔ اس کے اسٹریٹجک اور آپریشنل پہلو ابھی تک تیار نہیں کیے گئے ہیں۔ ماحول کی بقاء میں پانی کے کردار کو بھی اس پالیسی میں تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔‘