ترکی: 'ماؤں' کی ریلی پر پولیس کی شیلنگ، پابندی عائد
استنبول: ترکی نے 'ماؤں' کی اپنے بیٹوں اور عزیزوں کی گمشدگی کے خلاف 90 کی دہائی کے وسط سے نکالے جانے والی ہفتہ وار احتجاجی ریلی پر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر پابندی لگا دی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق ترکی کے وزیر داخلہ نے کہا کہ ریلی کو دہشت گرد گروپ کی جانب سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا خدشہ ہے، جس کے باعث اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔
دوسری جانب ترک پولیس نے غیر متوقع طور پر وسط استنبول میں 'ماؤں' کے 700ویں احتجاج میں شریک خواتین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے دوران 'ماؤں کی تحریک' کی رہنماؤں سمیت لگ بھگ 50 افراد کو حراست میں لیا، جن میں 82 سالہ ایمائن اوساک بھی شامل تھیں۔
تاہم بعد ازاں تمام افراد کو رہا کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کرد باغیوں سے روابط پر ترکی کی امریکا پر تنقید
ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سوئلو کا کہنا تھا کہ 'ہم انہیں احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ ہم اس کے ناجائز استعمال اور دھوکے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'کیا ہمیں دہشت گرد تنظیم کی طرف سے مادریت کے استحصال پر آنکھیں بند کر لینی چاہیئیں؟'
سلیمان سوئلو نے ریلی پر پابندی کی مزید تفصیل نہیں بتائی تاہم استنبول کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے منسلک سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے لوگوں سے ریلی میں شرکت کی درخواست کے بعد اس پر پابندی عائد کی گئی۔
ماؤں کی ریلی پر پابندی کے اقدام پر انسانی حقوق کے رہنماؤں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھیں: ترک فوج کی کردوں کے خلاف کارروائی: امریکا کو باز رہنے کا انتباہ
واضح رہے کہ سیکڑوں ماؤں کی جانب سے 27 مئی 1995 سے ہر ہفتہ کے روز یہ احتجاج، 1980 اور 1990 کی دہائی میں اپنے بیٹوں اور عزیزوں کی مبینہ طور پر ریاست کے ہاتھوں گمشدگی کی یاد میں کیا جاتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب 'پی کے کے' کی شدت پسندی عروج پر تھی اور اس کا مطالبہ تھا کہ جنوب مشرقی کرد اکثریتی علاقے میں اسے اپنی حکومت قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔
1984 میں شروع ہونے والا یہ تنازع اب بھی جاری ہے جس میں کئی افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔