'وزیراعظم،مائیک پومپیو کی گفتگو پر امریکی اعلامیہ حقیقت کے برعکس'
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کا اعلامیہ حقیقت کے برعکس ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'وزارت خارجہ میں وزیر اعظم عمران خان کو خارجہ پالیسی پر بریفنگ دی گئی اور خارجہ سطح پر ملک کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کیا گیا، وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ مؤثر اور ٹھوس انداز سے پاکستان کی ترجمانی کی جائے گی۔'
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'سات سال بعد وزارت خارجہ میں آیا ہوں جس دوران دنیا بدل چکی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'عالمی سطح پر ایک بار پھر طاقتوں کی تقسیم کا عمل جاری ہے، خطے میں امن و استحکام ضروری ہے، پاکستان کو معاشی ترقی بھی درکار ہے اور پاکستان کی سیاسی جہتیں مشرق کی جانب جا رہی ہیں، کیونکہ پاکستان اب مغرب کا منظور نظر نہیں رہا۔'
پاک ۔ بھارت تعلقات کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں تعطل تھا اور ہے، وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے، لیکن تعلقات میں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی جبکہ ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان آگے کیسے بڑھے گا۔'
وزیر خارجہ نے کہا کہ 'بھارتی وزیر خارجہ نے مجھے خط لکھ کر مبارکباد دی، ہم بھارت سے تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہیں لیکن پاکستان کا رویہ معذرت خواہانہ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اجلاس میں افغانستان سے تعلقات پر بھی غور کیا گیا، افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے، امریکا اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کسی سے پوشیدہ نہیں، ایران پاکستان کا دوست ہے اور ہم پرامن بارڈر کے خواہشمند بھی ہیں، ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی ہے، وہ 30 اور 31 اگست کو پاکستان آنا چاہتے ہیں جنہیں ہم خوش آمدید کہیں گے۔'
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ' پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک اہم پیش رفت ہے، سی پیک سے ذیادہ سے ذیادہ مستفید ہونے پر سوچ بچار بھی ہوئی، چین اور پاکستان کی دوستی مثالی ہے اور رہے گی، چین کے وزیر خارجہ 8 اور 9 ستمبر کو پاکستان تشریف لارہے ہیں جبکہ چین کے ساتھ تعلقات میں مزید وسعت اور گہرائی لائیں گے۔'
انہوں نے کہا کہ 'امریکا اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کی اہمیت سے کوئی غافل نہیں، امریکا کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ بھی رہا ہے، امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کی 5 ستمبر کو پاکستان آمد متوقع ہے جبکہ ہمیں اپنے تقاضے اور ضروریات امریکا کو سمجھانے ہوں گے۔'
مائیک پومپیو کی عمران خان کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فون کال کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'امریکی محکمہ خارجہ نے ٹیلی فون کال پر جو مؤقف اختیار کیا وہ حقیقت کے برعکس ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی وزیراعظم سے سیکریٹری اسٹیٹ کی گفتگو،امریکا اپنے موقف پر قائم
انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کی امریکی سیکریٹری خارجہ سے بہت اچھی گفتگو ہوئی، انہوں نے وزیراعظم کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ تعمیری تعلقات چاہتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اس ٹیلی فونک گفتگو میں پاکستان میں کام کرنے والے دہشت گردوں کے تذکرے کا امریکی موقف حقیقت کے برعکس ہے اور میں یہ بات بہت اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔'
دہشت گردوں کو معاونت فراہم کرنے والے ممالک کے حوالے سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی فہرست میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے متعلق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'ایف اے ٹی ایف کا معاملہ سب کے سامنے ہے، میں ہرگز نہیں چاہوں گا کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں رکھا جائے۔'
سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ 'سمندر پار پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں، سمندر پار پاکستانی وطن عزیز کے لیے گہرے جذبات رکھتے ہیں اور ہم ان کے لیے عالمی سطح پر سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔'
وزیر خارجہ نے بتایا کہ 'آج وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کئی اہم فیصلے ہوئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ غیر ضروری بیرونی دورے نہیں ہوں گے۔'
انہوں نے کہا کہ 'وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق جب بیرون ملک کا دورہ کروں گا تو فرسٹ کلاس کے بجائے بزنس کلاس میں سفر کروں گا، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام نہیں کروں گا اور کوشش ہوگی کہ بیرون ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں میں ہی رکوں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی وزیر یا سیکریٹری وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر بیرون ملک سفر نہیں کر سکے گا، اگر کوئی دورہ پاکستان کے مفاد میں ہو گا تو وہی دورہ ہوگا۔'