پاکستان

لوڈ ویڈنگ : ایک اہم مسئلے پر روشنی ڈالنے والی کہانی

لوڈ ویڈنگ چند ایسی فلموں میں سے ایک ہے جن میں ایسے مسائل دکھائے گئے ہیں جو ہمارے معاشرے میں آج بھی موجود ہیں۔

لوڈ ویڈنگ بیشتر پاکستانی فلموں کی طرح شادی کے ساتھ شروع ہوتی ہے مگر اس کی کہانی پھر ایسا موڑ لیتی ہے جس کی آپ نے توقع بھی نہیں کی ہوگی۔

دلبرداشتہ راجا (فہد مصطفیٰ) ایک شادی میں لائٹننگ کا کام کررہا ہوتا ہے مگر اس کا دھیان اس وقت بھٹک جاتا ہے جب وہ اپنی محبت کو کسی اور سے شادی کرتے دیکھتا ہے۔

راجا بچپن سے ہی میرو (مہوش حیات) کو چاہتا تھا مگر وہ کبھی اس کے سامنے محبت کا اظہار نہیں کرسکا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب تک اس کی بڑی بہن بے بی (فائزہ حسن) کی شادی نہیں ہوجاتی، اس کی شادی بھی نہیں ہو پائے گی۔ بے بی کی شادی اس لیے نہیں ہوپارہی کیونکہ گھر کے سربراہ راجا کے پاس مناسب رشتے کے لیے جہیز کے پیسے نہیں۔

مگر پھر کہانی اس وقت ٹرن لیتی ہے جب شادی کے دن ہی میرو کا شوہر چل بستا ہے، بیوہ ہونے کے بعد وہ واپس قصبے میں لوٹ آتی ہے جو کہ اس کی نئی حیثیت کے حوالے سے کچھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کرتا، مگر راجا کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اب دوبارہ اپنی محبت کھو نہیں سکتا اور اپنی بہن کو دیکھتے ہوئے بھی وہ میرو کے لیے اپنی محبت کا اعلان کردیتا ہے۔

درحقیقت لوڈ ویڈنگ حالیہ عرصے کے دوران ریلیز ہونے والی چند ایسی فلموں میں سے ایک ہے جن میں ایسے مسائل دکھائے گئے ہیں جو ہمارے معاشرے میں آج بھی موجود ہیں۔

بیشتر پاکستانی فلموں میں خوش باش مہندی اور ڈھولکی دکھائی جاتی ہے مگر لوڈ ویڈنگ میں حقیقی تناﺅ، درد اور وہ رکاوٹیں دکھائی گئیں جن کا سامنا سب کو ہوتا ہے۔

فلم کی کہانی (اس میں کچھ Spoilers بھی ہیں)

لوڈ ویڈنگ میں 'لوڈ' کا تعلق لوڈشیڈنگ سے نہیں بلکہ اس بوجھ سے ہے جو کسی شادی میں سامنے آتا ہے یعنی جہیز، اگرچہ یہ ایک اہم موضوع ہے مگر فلم بنانے والی ٹیم نے ایک قدم آگے بڑھ کر دکھایا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہر مرحلے میں کسی فرد کی ذہنیت کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اور خواتین پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

فرحانہ المعروف بے بی بانی (فائزہ حسن) کی شادی اس لیے نہیں ہوپاتی کیونکہ اس کا خاندان جہیز کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس حقیقت کو تسلیم کرنے یعنی بے بی کو اچھا رشتہ نہیں مل سکتا، اس کی ماں (ثمینہ احمد) ردعمل میں بیٹی کی شخصیت کو نشانہ بناتی ہے، اسے وزن کم کرنے کا کہتی ہے، جلد کو دیکھنے اور کام کرنے کا کہتی ہے۔ وہ یہ بھی شکایت کرتی ہے کہ 'بے بی کی عمر نکلی جارہی ہے'۔

راجا اپنی بے بی باجی کے باعث اپنی شادی ملتوی ہونے پر احتجاج کرتا ہے اور یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ اس کی عمر بھی بڑھ رہی ہے تو ماں کہتی ہے 'مرد کی عمر کو کوئی نہیں دیکھتا'۔

میرو کے پہلے شوہر کے انتقال کے بعد لوگ اس سے کسی قسم کی ہمدردی کی بجائے اس سے کسی اچھوت جیسا سلوک کرتے ہیں، مرحوم شوہر کا خاندان میرو کو اس کی بہن کے گھر بھیج دیتا ہے اور سامان بھی واپس کردیتا ہے۔

بیوہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اسے کزن کی شادی سے جانے کو بھی کہا جاتا ہے، یہ دیکھنا کافی تکلیف دہ ہے مگر یہ حقیقت زیادہ تکلیف دہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے۔

جب راجا میرو سے شادی کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس کی ماں اور بہن اسے فوراً چڑیل قرار دیتے ہیں جس نے ان کے معصوم بیٹے/بھائی کو پھنسا لیا، حالانکہ وہ دونوں اس وقت تک میرو سے ملے بھی نہیں ہوتے، مگر یہ جانتے ہیں کہ وہ بیوہ ہوچکی ہے جبکہ راجا اس سے لو میرج کرنا چاہتا ہے، جو کہ میرو سے ان کی نفرت کے لیے کافی ہے۔

یہاں تک کہ راجا کا بہترین دوست بھی پوچھتا ہے کہ 'بیوہ سے کون پیار کرتا ہے؟ کیونکہ جوڑ برابر کا اچھا لگتا ہے'۔

اور جب آخرکار راجا کی شادی میرو سے ہونے لگتی ہے تو بے بی باجی خوشی منانے سے انکار کردیتی ہے، جبکہ اپنے بھائی اور بھابھی دونوں سے نفرت کرنے لگتی ہے کیونکہ وہ کنواری رہ جاتی ہیں۔

بے بی کی پرورش ایسی ماں کے ہاتھوں ہوتی ہے جو کہ بس اس کی شادی کی ہی بات کرتی رہتی ہے۔ بے بی نے اس کے سوا کچھ نہیں سنا ہوتا کہ وہ بوجھ ہے اور ماں کے لیے اس کی شادی سے بڑھ کر کوئی اور فکر نہیں۔

ہم سب ہی ایسی کسی بے بی باجی سے واقف ہوتے ہیں، 2018 میں بھی دنیا میں ایسی متعدد خواتین ہیں جن کو اپنی قدر کا علم ہی نہیں، یقیناً ہم نے کافی پیشرفت کی ہے مگر شہروں سے باہر بے بی باجی جیسی متعدد خواتین ہیں، جن کی شخصیت ٹوٹنے کے دہانے پر ہوتی ہے کیونکہ ان کی اہمیت شادی سے منسلک کی جاتی ہے۔

بے بی باجی کبھی اتنی کینہ پرور نہ ہوتیں اگر دیسی شادی کلچر میں ایسی بدعتیں نہ ہوتیں، فلم میں بھی جہیز کے مسئلے کو ہی ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔

بے بی کا رشتہ متعدد گھریلو اور پرتعیش اشیاء کی فہرست کے ساتھ آتا ہے اور استحقاق کے ساتھ یہ فہرست دی جاتی ہے، فلم میں دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکے والوں کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے طاقت ان کے پاس ہے، یہاں تک کہ رشتے پر ان کی غیر یقینی کا اظہار بھی لڑکی والوں کو ان کے پیروں میں گرا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

فلم میں ایسے متعدد لمحات ہیں مگر لوڈ ویڈنگ کی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اسے اس طرح پیش نہ کریں کہ لوگوں کو برا لگے بلکہ فلم کا انداز ایسا ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو کرداروں کے جملے اور ذہنیت سے عدم اطمینان کا شکار کردیتا ہے، یہ عدم اطمینان تبدیلی لانے میں مدد دے سکتا ہے۔

محبت کی کہانی

راجا اور میرو کی محبت کی کہانی چہرے پر مسکراہٹ دوڑا دیتی ہے، یہ معصوم، حقیقی اور خوبصورت ہے۔ راجا کے رومانوی انداز حقیقی زندگی جیسے تو نہیں مگر سادگی اسے کسی کھیت میں رقص یا آتشبازی کے مظاہرے سے کہیں زیادہ بنادیتی ہے۔

جیسے جب میرو کی توہین کرکے ایک شادی سے نکلنے کو کہا جاتا ہے تو راجا بلیک آﺅٹ کردیتا ہے، ایسی ہی محبت ہر کوئی اپنی زندگی میں چاہتا ہے۔

اور یہ ان چند ایک فلموں میں سے ایک ہے جس میں ہیرو اپنی خوابوں کی شہزادی کا تعاقب نہیں کرتا۔

جب میرو شروع میں راجا کی پیشقدمی کو مسترد کردیتی ہے، تو راجا اسے ہر قیمت پر نظرانداز کرنے لگتا ہے، یہاں تک کہ ایک برج سے چھلانگ لگا دیتا ہے تاکہ اس کے سامنے سے نہ گزرنا پڑے۔ درحقیقت راجا نے انکار کو جواب کے طور پر لیا اور میرو کو صورتحال سمجھنے کا موقع دیا اور اسے ہراساں نہیں کیا۔

اداکاری فلم کا سب سے بہترین حصہ

کردار نگاری اور فلم کی تھیم کو اداکاروں نے بہترین انداز سے پیش کیا۔

فہد مصطفیٰ اور مہوش حیات اپنے کرداروں میں فٹ نظر آئے، اگرچہ دونوں ایک ساتھ کئی فلموں میں نظر آچکے ہیں مگر اس فلم میں ان کی محنت رنگ لائی ہے۔ اپنے کرداروں میں معصومیت کا ٹچ دینے کے ساتھ لہجے کے باوجود اپنی آوازوں کو کنٹرول میں رکھنا متاثر کن تھا۔

فائزہ حسن اگرچہ کئی مواقعوں پر کچھ زیادہ ڈرامائی نظر آئیں، مگر انہوں نے بھی بے بی باجی کے کردار کے ساتھ انصاف کیا۔

راجا اور بے بی کی ماں کے روپ میں ثمینہ احمد کو دیکھنا تفریحی ثابت ہوا، ان کے ڈائیلاگ ڈیلیوری بہترین تھی۔

سب اداکار ہی امیدوں پر پورے نہیں اتر سکے، قیصر پیا کی پرفارمنس بطور راجا کے بہترین دوست اور کہانی بیان کرنے والے کے طور پر مایوس کن تھی۔

گیم شو ہوسٹ کے طور پر عاشق رفاقت ہنسنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

کمزوری کیا تھی؟

مجموعی طور پر فلم کافی اچھی ہے ، مگر چند خامیاں اسے بہترین قرار دینے سے روکتی ہیں۔

لوڈ ویڈنگ کا ایک مسئلہ تو نبیل قریشی اور فضا علی میرزا کی ہر فلم میں نظر آتا ہے اور وہ ہے دورانیہ۔ یہ فلم کافی طویل تھی حالانکہ پندرہ منٹ کے مناظر آسانی سے کاٹ کر پانچ منٹ کے کیے جاسکتے تھے، جبکہ گانے بھی اسی وجہ سے بیزارکن محسوس ہوتے ہیں۔

فلم کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے سے کچھ زیادہ ہے، مگر اسے دو گھنٹے کے اندر ختم کردینا چاہئے تھا۔

اگرچہ فلم میں کئی اہم موضوعات پیش کیے گئے مگر فلم کے اسکرپٹ پر مزید کام کی ضرورت تھی۔ فلم کے ابتدائی حصے میں چند اچھے لمحات نظر آتے ہیں مگر آگے جاکر اٹکل پچو اور بے ڈھنگے پن کا شکار ہوجاتے ہیں، اسکرپٹ پر نظرثانی کی ضرورت تھی۔

فلم کے گانوں کو بھی بہتر بنایا جانا چاہئے تھا جو نہ صرف فلم کے دورانیے کو بڑھاتے ہیں بلکہ فلم کو کسی قسم کی بہتری بھی نہیں دیتے۔

کیا فلم اپنا مقصد بیان کرنے میں کامیاب رہی؟

بیشتر افراد نے اس فلم کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ فیملی کے لیے انٹرٹینمنٹ کے ساتھ اس میں ایک اہم پیغام دیا گیا ہے مگر فلم نہ تو پوری فیملی کے تفریحی تھی اور نہ ہی اس میں اہم پیغام کو پوری افادیت سے پیش کیا جاسکا۔

تاہم لوڈ ویڈنگ درحقیقت ایسی فلم ہے جو پورے خاندان کے لیے ہے اور اس میں ایسا پیغام دیا گیا ہے جسے اب زیادہ سے زیادہ ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

لوڈ ویڈنگ میں ایسے مسائل پر بات کی گئی جن کا سامنا پاکستان کی بیشتر خواتین کو ہوتا ہے۔

انگلش میں مکمل ریویو اس لنک پر جاکر پڑھیں۔