’وزیراعظم ہاؤس یونیورسٹی‘: میرا رومان، حکیم سعید کی خواہش
ہماری تربیت میں ماحول اور حالات و واقعات نہایت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کچی عمروں میں بیتنے والے بہت سے ہنگامے ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں پھر جب خواب دیکھنے کی عمر آتی ہے تو پھر یہی مشاہدات اور تجربات ان سپنوں کو خام مال مہیا کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ایک نسل کے خواب دوسری کے خواب سے مختلف ہو جاتے ہیں۔
کچھ لوگ 1980ء کی دہائی کو حیرت انگیز کہتے ہیں، یہی معاملہ ہم 1990ء کی دہائی والے ’بچوں‘ کا بھی ہے ہم نے اپنا بچپن کراچی کی ایک ایسی روایت پسند بستی میں صرف کیا، جہاں تین اطراف سے بند راستے ایک احساس تحفظ دیتے تھے۔
’تحفظ‘ کا لفظ یوں برتا کہ شہر آشوب میں وہ زمانہ بدترین بے امنی میں شمار ہوتا ہے۔ سیاسی خونریزی، پکڑ دھکڑ، ہڑتال اور کرفیو جیسے گھاؤ اس شہر کی چھاتی پر لگتے تھے۔ شاید یہی سبب تھا کہ ہمیں فرصت کا بیش تر وقت بھی گھر کے اندر گزارنے کی عادت ڈالی گئی، جس میں ’زیر سایہ‘ کھیلوں کے ساتھ مطالعے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔
ہم نے ہوش سنبھالتے ہی بے نظیر اور نواز شریف کی آتی جاتی حکومتیں دیکھیں، اور ہر حکومت کے خاتمے پر جب ارد گرد لوگوں کو ’جیوے جیوے‘ کرتے دیکھا تو یہی جانا کہ حکومت کا خاتمہ یقیناً خوشی کا ہی کوئی تہوار ہے۔
تصاویر: پاکستان کے چند عہد ساز لمحوں پر ایک نظر
ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی کہ آخر یہ تختہ الٹتے کیسے ہیں، پھر انتخاب لڑنے سے ہم یہ سمجھتے کہ واقعتاً کوئی کُشتی کا دنگل ہوتا ہے، جس میں فتح یاب ہونے والا ہی حکومت کا حق دار ہوتا ہے۔
اپنے ہاں کے قومی اسمبلی کے حلقے سے قاضی حسین احمد اور رمضان اعوان کا ’گاڑی‘ کے نشان پر صوبائی انتخاب لڑنا بھی یاد ہے۔ ’آجا قاضی، جیت لے بازی‘ کی چاکنگ سے ’آیا ایم کیو ایم کا زمانہ‘ کی تاریخ کے بھی ہم شاہد ہوئے اور ’مظلوموں کا ساتھی ہے‘ میں اُس وقت ’مظلوموں‘ کا لفظ بہت تعجب سے سنتے کہ مزدور تو ہوتا ہے، یہ مظلوم کیا لفظ ہے؟
اس سب کے باوجود گھر کا ماحول قطعاً غیر سیاسی رہا۔ ہمیں بھی جو پہلی سیاسی نصیحت ہوئی وہ یہ کہ خبردار جو گھر سے باہر کسی سے سیاست پر بات کی۔ جب حسبِ عادت اس پابندی پر سوال اٹھایا، تو جواب ملا تھا کہ اس لیے کہ لوگ دشمن بن جاتے ہیں، اور بات سمجھ آگئی!
1992ء کا ورلڈ کپ بھی ہمارے زمانے کے بچوں کے ذہن سے کبھی کھرچا نہیں جا سکتا۔ شاید کرکٹ سے پہلے ورلڈ کپ سنا اور ورلڈ کپ سے زیادہ یہ جانا کہ عمران خان نے یہ جتوایا ہے۔ پھر عمران خان ریٹائر ہوئے، مگر ہمارے ذہنوں میں عمران خان کا ایک نیا دور شروع ہوا
ایک ہیرو کا دور
پھر پتا چلا عمران خان ایک کینسر اسپتال بنا رہے ہیں، اخبارات میں عمران خان کی ہاتھ لہراتے ہوئے عطیات کی اپیل کرتی تصویر بہ عنوان ’میں آپ کے پاس آ رہا ہوں‘ آج بھی ذہن سے محو نہیں ہوتی۔
سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کے زمانے میں یہ اخبار تھے یا بڑوں اور کلاس میں کچھ بڑبولے بچوں کے تبصرے، جن سے ’دوسری رائے‘ معلوم ہوتی۔ وہیں سے ایک دن پتا چلا کہ عمران خان سیاست میں آگیا ہے اور 'ہیرو' ماننے والوں نے تب اِسے کچھ اچھا نہیں سمجھا۔
مزید پڑھیے: عمران خان کا وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنا قومی خزانے کیلئے کتنا فائدے مند؟
1997ء کے انتخابات رمضان میں ہوئے، جب عمران خان کی تحریک انصاف ’چراغ‘ کے انتخابی نشان کے ساتھ وارد ہوئی، مگر یہ نوزائیدہ جماعت کوئی نشست نہ جیت سکی۔
سیاسی نشیب و فراز کے ساتھ وقت گزرتا گیا ہمارے اہم ترین مشغلے مطالعے میں ’ہمدرد نونہال‘ کے بعد اب ’ہمدرد‘ کی کتب بھی آگئیں، جس میں حکیم محمد سعید کے سفرنامے غالب تھے. بہت حیرانی ہوئی کہ ’نونہال‘ رسالے میں حکیم سعید کتنے محتاط ہیں، جب کہ کتابوں میں بہت بے باک۔ درست بھی یہی تھا کہ معاملہ نونہالوں کی تربیت کا تھا، ہمیں اُن سے عقیدت اپنی نانی سے منتقل ہوئی اور وہ ہمارے رائے ساز (Opinion Leader) ہوگئے۔
طب، تاریخ ، سماجیات سے سیاسیات اور اخلاقیات سے ماحولیات تک کوئی شعبہ انہوں نے خالی نہ چھوڑا۔ آج جب ایک ایک موضوع پر اُن کے خیالات ذہن کے پردے پر چل رہے ہیں، تو مجھے اُن کی ساری کتب انقلابی دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ سب باتیں مجھے کل نو منتخب وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے پہلے خطاب کے بعد دوبارہ یاد آئیں، جب انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کو جامعہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
کیوں کہ ہمارے کھیل کود کی عمر میں حکیم سعید کا یہ جملہ ہمارے خیالوں کو پختگی دے رہا تھا کہ ’یہ عالی شان وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس جیسے اقتدار کے ایوانوں کو جامعات بناؤ اور حکومت فیصل مسجد سے چلاؤ!‘
تب کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جاگیرداروں اور وڈیرہ شاہی کے چُنگل میں پھنسے اس ملک میں عملاً کبھی ایسا ہو بھی سکتا ہے۔
جانیے: فاطمہ جناح ہاؤس، قائداعظم ہاؤس میوزیم یا فلیگ اسٹاف ہاؤس؟
آج عمران خان نے اس انقلابی قدم کا اعلان کیا ہے، تو یہ اُس ’بچے‘ کے کچے پکے ذہنوں میں سجنے والے اُن سنہرے خواب کی تکمیل ہے، جسے اب تک ناممکنات میں رکھا جاتا تھا۔
خوابوں کی تکمیل کے لیے کبھی عمریں اور نسلیں گزر جاتی ہیں، لیکن اگر بچپن کے خواب، بچپن کے بعد ہی حقیقت بن جائیں، تو یہ ایک ایسا منفرد احساس ہے، جو صرف خواب دیکھنے والے ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں!
کیا ہی اچھا ہو کہ وہ چاروں گورنر ہاؤسز کو بھی وزیراعظم ہاؤس کی طرح جامعہ بنانے کا اعلان کر دیں، تو اُن کا یہ انقلابی قدم ملک گیر ہو جائے۔
بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔