اتوار کی شب پاکستان کے نو منتخب وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ یہ خطاب اپنی طوالت، انداز اور مشمولات میں ماضی کی روایت سے بہت مختلف اور الگ نظر آتا ہے۔
بالعموم قوم کے نام پہلے خطاب میں قوم کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے، اک بہتر مستقبل کی نوید دی جاتی ہے اور پھر چند رسمی باتیں۔ خیال رکھا جاتا ہے کہ ممکنہ حد تک اختصار برتتے ہوئے چند باتیں کردی جائیں جن سے ایک مثبت تاثر قائم ہوجائے اور عوامی سطح پر وزیرِاعظم کی رونمائی بھی ہوجائے۔
اس بات کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس پر قومی ذرائع ابلاغ میں فوراً ہی سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوجانے کا امکان ہو، مبادا حکومت کا ’ہنی مون پیریڈ‘ برباد ہوکر رہ جائے۔
اس تناظر میں پاکستان کے وزیرِاعظم کا ایک گھنٹہ 9 منٹ کا خطاب کسی طرح بھی اختصار کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ پھر اس خطاب میں انہوں نے تقریباً ہر اس مسئلے کا ذکر کیا جو ان کے خیال میں پاکستان کو درپیش ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے مسائل کے ممکنہ حل کی جانب اشارہ بھی کیا اور یوں اپنے تئیں مستقبل کی ایک سمت معین کردی جس پر وہ ملک و قوم کو بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں۔