کوئٹہ: کوئلے کی کان میں ریسکیو آپریشن ختم، ہلاکتوں کی تعداد 18 ہوگئی
کوئٹہ کے علاقے سنجدی میں کان میں پھنسنے والے 14 کان کنوں سمیت 18 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں۔
کان میں 6 روز سے جاری ریسکیو آپریشن کے دوران امدادی ٹیم کے اہلکار بھی لاپتہ پوگئے تھے جن کی لاشیں بھی نکال لی گئیں جس کے بعد آپریشن مکمل ہوگیا۔
واضح رہے کہ 12 اگست کو سنجدی میں کان میں گیس بھرنے سے دھماکے کے باعث 14 کان کن پھنس گئے تھے۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ: کوئلہ کی کان سانحے نے 15 جانیں لے لیں
ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے پھنسنے والے کان کنوں کو نکالنے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جو 6 روز تک جاری رہا۔
آپریشن کے دوران امدادی ٹیم کے 4 افراد بھی کان میں پھنس گئے تھے تاہم ان کی بھی تلاش کا عمل ساتھ ساتھ جاری رہا۔
واقعے میں پھنسنے والے کان کنوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے شانگلہ، سوات اور دیر کے علاقوں سے تھا۔
سنجدی میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے زرین گل نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ متعلقہ حکام نے کوئلے کی کان میں امدادی ٹیم کو بھیجنے سے قبل اس کا معائنہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: کوئلے کی کان میں دھماکا، 14 کان کن پھنس گئے
بلوچستان میں کول مائنرز ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما بخت نواب کا کہنا تھا کہ ’واقعہ کوئلے کی کان کے مالک اور مائنرز اتھارٹی کی نظر اندازی کی وجہ سے پیش آیا، اس کان میں کام کرنے کی حالت انتہائی خطرناک ہے‘۔
یاد رہے کہ اس سے قبل کمشنر کوئٹہ نے کان کنوں کی تلاش کے لیے جانے والے ریسکیو اہلکار کی تعداد 5 بتائی تھی۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے کی حالت زار کی وجہ سے تقریباً روزانہ کی بنیاد ہر، ہرنئی، سورانج، دکی، مچ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں جانیں ضائع ہوتی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر رپورٹ نہیں ہوتیں۔
کوئلے کی کان میں کام کرنا پتھر کی کانوں میں کام کرنے سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے مطابق ہر سال تقریباً 100 سے 200 افراد کوئلے کی کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں۔