پاکستان

اصغر خان کیس: ’عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو فوجی حکام کو طلب کریں گے‘

چیف جسٹس نے وزارتِ دفاع سے کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرکے ایک ماہ کے اندر رپورٹ بھی طلب کرلی۔
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں وزارتِ دفاع سے کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرکے ایک ماہ کے اندر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو وزارتِ دفاع کے بجائے فوجی حکام کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے، تاہم عدالتی حکم پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ’پرویز مشرف واپس آکر دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں‘

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ اصغر خان کیس میں فوجی افسران کے خلاف ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے وزارتِ دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر فلک ناز سے استفسار کیا کہ اب تک آپ نے اس فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا؟ جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ابھی تک وزارتِ داخلہ کی جانب سے سمری موصول نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کتنے دن میں تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں گے جس پر انہوں نے درخواست کی کہ انہیں اس کام کے لیے 4 ہفتوں کا وقت دیا جائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے انہیں 4 ہفتوں کا وقت دے دیا جبکہ وزارتِ دفاع سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ ضروری معلومات فیڈرل انویسٹی گیش ایجنسی (ایف آئی اے) کو مہیا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کیس دوبارہ سماعت کیلئے مقرر، نواز شریف، اسلم بیگ، اسد درانی کو نوٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیاست دان ایف آئی اے سے تعاون کر رہے ہیں جس پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے بتایا کہ میر ظفر اللہ خان جمالی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، انہوں نے رقوم لینے سے انکار کیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرحاصل بزنجو اور ہمایوں مری الیکشن میں مصروفیات کے باعث اب ایف آئی اے میں پیش ہوں گے۔

بعدِ ازاں عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں ماہ 11 اگست کو 1990 کی دہائی میں سیاست دانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کے معاملے سے متعلق اصغر خان کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم

اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیس سے جڑے فریقین سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، سابق ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) اسد درانی، اٹارنی جنرل خالد اختر، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، مہران بینک کے مالک یونس حبیب سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ عدالت نے مذکورہ کیس کے تفتیشی افسر بشیر میمن کو رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا تھا۔

اس کیس میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ کی جانب ایک درخواست دائر کی گئی تھی کہ جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ ان کا کیس ٹرائل کے لیے فوجی عدالت نہ بھجوایا جائے۔

اصغر خان کیس — اب تک کیا ہوا!

سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایا گیا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی شامل تھے۔

مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے، جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی رو گردانی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کیس: نواز شریف نے رقم لینے کا الزام مسترد کردیا

بعد ازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایوان صدر میں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں کافی ثبوث جمع کیے گئے، لہٰذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کے لیے مقدمات کی تیاری کرے۔

مزید پڑھیں: اصغر خان کیس: نواز شریف،سابق ڈی جی آئی ایس آئی سمیت دیگر افراد کو نوٹس جاری

جس کے بعد سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔

اپنی تحقیقات کے دوران 2015 تک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ایئر مارشل (ر) اصغر خان، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی، مہران بینک کے مالک یونس حبیب، ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس ضمن میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جو رواں سال 6 مئی کومسترد کر دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کیس: ایف آئی اے کا نواز شریف کو دوبارہ نہ طلب کرنے کا عندیہ

بعد ازاں 9 جون کو اصغر خان عملدرآمد کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے 1990 کی انتخابی مہم کے لیے 35 لاکھ روپے لینے کے الزام کو مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے کہا ہے کہ1990 کی انتخابی مہم کے لیے اسد درانی یا ان کے کسی نمائندے سے کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی کبھی یونس حبیب سے 35 لاکھ یا 25 لاکھ روپے وصول کیے۔

نواز شریف نے کہا کہ ان الزامات سے متعلق 14 اکتوبر 2015 کو اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کروا چکا ہوں۔

اس کے علاوہ اصغر خان کیس میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت پر عائد الزامات کے حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔

سراج الحق نے بھی 1990 کے انتخابی مہم کے لیے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی 2007 میں رضاکارانہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ بنی،ہم نے آئی ایس آئی سے کوئی رقم وصول نہیں کی، ہم کسی بھی فورم یا کمیشن میں جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔