دھرتی سے محبت کرنے والے ہندو ہندوستان کیوں نہیں گئے؟
’دھرتی سے محبت کرنے والے ہندو ہندوستان نہیں گئے‘
’اگلی صبح سورج طلوع ہوتے ہی جہاز کا زور زور سے گھگھو کیا بجا جیسے وہ صور اسرافیل تھا، جس کے بجتے ہی ایک ایک ہوکر سبھی مردے اپنی اپنی قبروں سے آہستہ آہستہ نکلنے لگے تھے۔
کپتان بیک ڈیک پر آکر کھڑا ہوا اور مردہ بنے لوگ حرکت کرتے اور اونگھتے اس کے اردگرد جمع ہوگئے۔ کپتان نے اعلان کیا ’جہاز کی مشین چالو ہوگئی ہے، 2 گھنٹے میں جہاز اوکھا بندر سے ایک میل کے فاصلے پر آکر رکے گا۔ آگے سمندر کی گہرائی کم ہے جس میں جہاز نہیں چل پائے گا۔ آپ کو پہلے لانچوں میں اور پھر آگے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے اوکھا بندر تک پہنچایا جائے گا‘۔
’سب اپنا اپنا سامان باندھ کر تیار ہوجائیں، اوکھا بندر پر آپ کے کھانے پینے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ بندر پر کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں آپ کے نہانے اور آرام کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔‘ کپتان یہ اعلان کرکے اپنے کیبن کی جانب چلا گیا اور جل درگا (جہاز کا نام) نے اپنی رفتار پکڑ لی‘۔
یہ اقتباس برِصغیر کی تقسیم پر لکھی گئی آپ بیتی کا ہے جسے ہندوستان کے نامور صحافی و ادیب لچھمن کومل نے لکھا تھا۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی کا نام ’وہی کھاتے جا پنا‘ ( اوراقِ حیات) رکھا تھا۔ یہ سندھی زبان کی پہلی ایسی سحر انگیز آپ بیتی ہے، جسے پڑھتے وقت نہ صرف یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک آپ بیتی ہے بلکہ قصوں اور کہانیوں سے بھرپور اس آپ بیتی کا رنگ افسانوی سا لگتا ہے۔
اگر بٹوارے کے تاریخی حقائق کو کوئی جاننا چاہے تو اس آپ بیتی کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے مگر یہ قصہ درحقیقت اس خاندان کا ہے، جسے بٹوارے کی وجہ سے سندھ چھوڑنا پڑا تھا۔ سندھی زبان میں برِصغیر کی تقسیم کے حوالے سے کافی ادب لکھا گیا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے دوران پورے ہندوستان سے ہجرت اور نقل مکانی ہوئی تھی، جس میں سندھ اور پنجاب نمایاں رہے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کا ادب جہاں ہمیں افسانے، ناول، آپ بیتی اور شاعری میں ملتا ہے وہیں تقسیم کے درد اور خوشیوں کے قصے ہمیں صحافتی ادب میں بھی نظر آجاتے ہیں۔
تقسیم کا وہ زمانہ جہاں ہندوستان سے لوگ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں آئے تو کئی ایسے تھے جو پاکستان سے ہندوستان بھی گئے۔ 2 قومی نظریے پر قائم ہونے والے ملکوں میں مذہبی بنیادوں پر بھی ہجرت کا سلسلہ جاری رہا مگر پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے کئی خاندان ایسے تھے جنہوں نے تقسیم کے باوجود ہندوستان کا رخ نہیں کیا اور انہوں نے خود کو اس دھرتی سے جوڑے رکھا۔
ان میں سے کئی ایسے بھی خاندان ہیں جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کی تقسیم کو دیکھا بلکہ اس سارے عمل میں اس مٹی میں جینے اور مرنے کو ترجیح دی جہاں پر ان کا جنم ہوا تھا۔
آج بھی سندھ میں کئی ایسے غیر مسلم خاندان موجود ہیں جن پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑتا کہ وہ ہندوستان کے باسی نہیں ہیں اور ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کے وجود کا بنیادی نکتہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا حصول تھا۔
پڑھیے: دادی لیلاوتی: سندھ میں تعلیم کا دیا روشن کرنے والی شخصیت
دادی لیلاوتی سے لے کر کامریڈ سوبھو گیانچندانی تک کئی ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی دھرتی چھوڑنے سے انکار کیا اور انہیں ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں رہنا بہتر لگا۔ دادی لیلاوتی نے تمام عمر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کی جبکہ سوبھو گیانچندانی سیاسی طور پر بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ تھے۔ ان کے لیے وطن کے معنی اپنے لوگ اور ان کی اپنی جنم بھومی تھی، لہٰذا انہوں نےاس ملک میں رہنا اور اپنے لوگوں کے لیے کام کرنے کو ہی اتم سمجھا، اور یوں ان کا جینا مرنا اپنے لوگوں کے ساتھ رہا۔
جھمٹ مل جیٹھانند
پیشے کے اعتبار سے سینئر وکیل جھمٹ مل کا کہنا ہے کہ ’ایک انسان بھی اگر اچھائی کرنا چاہے تو وہ کہیں بھی رہ کر کرسکتا ہے۔ آج جو لوگ ہمیں اس ملک میں نظر آتے ہیں وہ بھی اپنا کام کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ اچھائی خطوں کی تقسیم سے تقسیم نہیں ہوجاتی ہے‘۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ جو دھرتی کا ٹکڑا ہمیں ملا ہے، اس سے زیادہ حسین کوئی خطہ ہے ہی نہیں، جس کے صحرا میں بھی اتنی خوبصورتی ہے کہ آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں، اس لیے ہمیں اس کی ترقی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔