نقطہ نظر

5 دہائیوں کی پارلیمانی تاریخ میوزیکل چئیر سے کم نہیں!

مارشل لا سے لے کر سویلین صدور کی جانب سے 58 (2) (بی) کے استعمال تک اس ملک کی پارلیمان نے بہت کچھ دیکھا ہے۔

5 دہائیوں کی پارلیمانی تاریخ میوزیکل چئیر سے کم نہیں!

فہیم پٹیل

آج ملکی تاریخ کے لیے اہم ترین دن یوں ہے کہ آج لگاتار تیسری مرتبہ جمہوری پارلیمان نے حلف لیا اور ممکنہ طور پر اسی ہفتے نئی آنے والی حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے گی۔

یہ انتخابات کئی حوالوں سے اہم ہیں۔ پہلی بات یہ کہ 1970ء کے بعد یہ پہلے الیکشن ہیں جن میں انتخابی وقت پر دھاندلی کی کوئی شکایت رپورٹ نہیں ہوئی۔ البتہ اپوزیشن کہتی ہے کہ یہ انتخابات ملکی تاریخ کے بدترین انتخابات ہیں کیونکہ من پسند چہروں کو اقتدار منتقل کیا گیا ہے۔ بہرحال ماضی کی طرح اس کی بھی جب تحقیقات ہوں گی تو چیزیں سامنے آ ہی جائیں گی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام نے نسبتاً آزمائے ہوئے لوگوں کے بجائے نئے چہروں کو ووٹ دیا اور یوں پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔

آگے جو کچھ ہوتا جائے گا وہ ہمیں ذرائع ابلاغ کی وجہ سے معلوم ہوتا رہے گا، لیکن پاکستان میں پارلیمانی تاریخ کیا رہی ہے، اس سے متعلق کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ لہٰذا کوشش کی گئی ہے کہ مختصراً یہاں پارلیمانی تاریخ سے متعلق کچھ اہم باتیں بیان کی جائیں تاکہ تاریخ کو جاننے کا موقع مل سکے۔

1972 سے 1977

آج 48 سال گزر جانے کے بعد بھی یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں 1970ء میں ہونے والے انتخابات اب تک کے سب سے زیادہ صاف اور شفاف تھے، جن پر کسی بھی سیاسی جماعت نے کسی بھی قسم کا الزام نہیں لگایا۔

لیکن جہاں یہ خبر اچھی ہے، وہیں اس لیے تلخ اور افسوسناک بھی کہ یہ اسمبلی اگلے 2 سال تک اپنا کام نہیں کرسکی کیونکہ ان انتخابات کے اگلے ہی سال پاکستان دولخت ہوگیا۔

1970 میں قومی اسمبلی کی 313 نشستوں کے لیے اتنخاب ہوا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ 167 سیٹیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی جبکہ 85 سیٹوں کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت سامنے آئی۔ اس انتخابات کی عجیب بات یہ تھی کہ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان سے ایک بھی سیٹ نہیں جیتی اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی مشرقی پاکستان سے کچھ حاصل نہیں کیا۔

1973 میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے کزن ممتاز بھٹو سے گفتگو کر رہے ہیں۔ — فوٹو ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز

انتخابات کے فوری بعد یحییٰ خان نے دونوں ہی لیڈران کو مبارکبادی خطوط لکھے لیکن مجیب الرحمٰن کو مستقبل کا وزیرِ اعظم لکھ کر مخاطب کیا۔

لیکن صورتحال اس وقت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی جب مجیب الرحمٰن اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلانے پر بضد ہوگئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔ اس ڈیڈلاک کی وجہ سے صورتحال بگڑتی گئی اور یوں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔

ان تلخ حالات میں باقی ماندہ پاکستان کی پہلی اور قیام پاکستان کے بعد پانچویں اسمبلی قائم ہوئی جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

1977

یہ انتخابات سال کے اختتام پر ہونے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو کے اچانک اعلان کی وجہ سے 7 مارچ 1977 کو ہی ہوگئے۔ ان انتخابات میں بھٹو جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے اور پورے ملک میں طاقتور لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دے دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ قومی اسمبلی کی 216 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے 155 میں کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے لیے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے نام سے ایک اتحاد سامنے آیا جسے 9 جماعتوں کا اتحاد بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ اتحاد کامیاب نہیں ہوسکا اور اس کے حصے میں محض 36 سیٹیں ہی آسکیں۔

انتخابات کے فوری بعد اس اتحاد نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شور مچایا اور نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا، مگر بھٹو نے تمام مطالبات کو رد کرتے ہوئے نئے انتخابات کروانے سے انکار کردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو PNA کے وفد سے ملاقات کرتے ہوئے۔ فوٹو: ڈان

لیکن بتدریج پی این اے کا احتجاج شدت اختیار کرتا گیا اور صورتحال بگڑتی گئی۔ جب حالات زیادہ خراب ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا اور مذاکرات کے کئی دور ہونے کے بعد بھٹو نے دوبارہ انتخابات پر رضامندی ظاہر کردی، مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ انہی کے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اگلے 11 سال تک ملکی اقتدار پر قابض رہے۔

جنرل ضیا الحق کو بھٹو نے ہی آرمی چیف منتخب کیا تھا اور ضیا اکثر بھٹو سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے نظر آتے تھے، مگر ان کی حکومت اور زندگی کا خاتمہ انہی کے ہاتھوں ہوا۔ فوٹو ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز۔

1985 سے 1988

1985 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا مگر سیاسی جماعتوں کے لیے ان میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔ چنانچہ فوج کی نگرانی میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان انتخابات کے خلاف احتجاج پر سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔

ضیاء الحق کی جانب سے ان انتخابات کے انعقاد کا مقصد محض اقتدار پر اپنے قبضے کو قانونی تحفظ دینا تھا۔ یہ خیال اس وقت ٹھیک بھی ثابت ہوا جب اسی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے پارلیمان کو حاصل اختیارات صدر کو منتقل کردیے اور یہ عہدہ ضیاء الحق کے پاس ہی تھا۔

چونکہ یہ غیر جماعتی انتخابات تھے اس لیے اس انتخابات میں کل 237 نشستیں میں 207 پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ 30 سیٹوں میں سے 21 خواتین کے لیے مخصوص تھیں اور 9 غیر مسلم افراد کے لیے۔

اس انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے جن کے ساتھ 21 وفاقی وزراء کے علاوہ 15 پارلیمانی سیکریٹری اور مشیران کی مدد بھی حاصل تھی۔ اس اسمبلی میں فخر امام نے اسپیکر کے فرائض انجام دیے۔

محمد خان جونیجو (بائیں) جنرل ضیاء الحق کے ساتھ۔

1988 سے 1990

جنرل ضیاء الحق نے 29 مئی 1988 کو اپنی ہی منتخب کردہ اسمبلی کو 58 (2) (بی) کی مدد سے تحلیل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسی سال نومبر میں ایک مرتبہ پھر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد ہوگا، مگر وہ اس پر عمل نہیں کروا سکے کیوں کہ 17 اگست کو وہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے بے نظیر بھٹو کی جانب سے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے انعقاد کے خلاف پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اب ملک میں جماعتی بنیادوں پر ہی الیکشن ہوں گے جس کے بعد ملک میں ایک بار پھر سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کے ہاتھ آئی اور انہوں نے بھرپور انتخابی مہم شروع کردی۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اس بار بھی ایک اتحاد موجود تھا جسے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھانے کے لیے ایوان صدر میں غلام اسحٰق خان کے ہمراہ

16 نومبر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی 207 نشستوں میں سے 94 پر کامیابی حاصل کرکے ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی جبکہ آئی جے آئی نے 56 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ نتیجتاً بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔

1990 سے 1992

مگر بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کی حکومت زیادہ عرصے نہیں چل سکی کیونکہ اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے آٹھویں ترمیم کے تحت صدر کو ملنے والی 58 (2) (بی) کی طاقت کی مدد سے اگست 1990 میں ان کی حکومت کو کرپشن اور امن و امان کی خراب صورتحال کو وجہ بنا کر ختم کردیا۔

غلام اسحٰق خان نے غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنایا اور 24 اکتوبر 1990 میں دوبارہ انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔

اس مرتبہ آئی جے آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے بھی پاکستان ڈیموکریٹک الائنس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس اتحاد میں پیپلز پارٹی کے علاوہ اصغر خان کی تحریک استقلال، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور ملک قاسم کی مسلم لیگ شامل تھی۔

مگر یہ اتحاد کام نہیں کرسکا کیونکہ 207 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں آئی جے آئی 105 پر کامیابی حاصل کرکے سب سے بڑی پارٹی بن گئی جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس محض 44 سیٹیں ہی جیت سکا، جس پر پیپلز پارٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام بھی لگایا۔

اس نتیجے کے بعد نواز شریف وزیراعظم بنے۔

1990 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اصغر خان نے 1996 میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی جس میں براہ راست آئی ایس آئی پر الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ 1990 میں ہونے والی دھاندلی کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔

تقریباً 16 سال بعد سپریم کورٹ نے اس پٹیشن پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان، آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا اور یہ کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں، سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔

لیکن نواز شریف کی حکومت بھی زیادہ دیر نہیں چل سکی اور صدر غلام اسحٰق خان سے شدید تناؤ کی وجہ سے ان کی حکومت کا بھی خاتمہ ہوگیا اور غلام اسحٰق خان نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد اس وقت کے چئیرمین سینیٹ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر اور معین قریشی نے نگران وزیرِ اعظم کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں اور اتنخابات کا انعقاد اکتوبر 1993 میں ہوا۔

1993 سے 1997

ان انتخابات کے لیے نواز شریف نے آئی جے آئی سے خود کو علیحدہ کیا اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی بنیاد رکھی اور اسی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔ یہ انتخابات 6 اکتوبر 1993 میں منعقد ہوئے جس میں اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی بڑی پارٹی بن کر تو سامنے آئی مگر اسے اتنی اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی کہ وہ اکیلے حکومت بناسکے، جس کی وجہ سے اس نے چھوٹی جماعتوں کو ملا کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔

207 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 89 جبکہ مسلم لیگ (نواز) نے 73 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔

انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے فاروق احمد لغاری کو صدر بنایا مگر 1997 میں انہوں نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو ختم کردیا۔ وجوہات اس بار بھی وہی پرانی تھیں، یعنی کرپشن اور امن و امان کی صورتحال۔ اس بار کرپشن میں حکومت کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری کا نام بھی شامل تھا اور پھر بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی وجہ سے بھی معاملات بہت خراب ہوگئے تھے۔

بینظیر بھٹو 1993 میں دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف لے رہی ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی

1997 سے 1999

بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے 3 فروری 1997 کو انتخابات کروانے کا اعلان کیا اور اس بار بھی اصل مقابلہ دو ہی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے درمیان ہی ہونا تھا۔

اب چونکہ بے نظیر کی حکومت کو کرپشن کے الزام میں ختم کیا گیا تھا لہٰذا اس مرتبہ انتخابی مہم کا اصل موضوع یہی تھا۔ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اور اس نے 207 میں سے 115 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی محض 18 سیٹیں ہی جیت سکی۔ اس بڑی کامیابی کے بعد مسلم لیگ (نواز) نے اکیلے ہی حکومت بنائی جس کے کچھ ماہ بعد ہی بے نظیر بھٹو نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرلی۔

13 اکتوبر 1999 کو ڈان اخبار کا صفحہ اول

2002 سے 2008

نواز شریف کو ملنے والی دو تہائی اکثریت بھی ان کو مارشل لا سے نہ بچا سکی اور 1999 میں سابق آرمی چیف پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔

اس غیر جمہوری فیصلے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان طویل عرصے سے معاملات خراب چل رہے تھے اور پھر طیارہ سازش کیس کو وجہ بنا کر جمہوری حکومت کو ایک مرتبہ پھر گھر بھیج دیا گیا۔

پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے تقریباً دو سال بعد یعنی 2002 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جو 10 اکتوبر کو منعقد ہوئے۔

ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کو 207 سے بڑھا کر 342 کردیا گیا۔ حیران کن طور پر پاکستان مسلم لیگ (ق) نے سب سے زیادہ 126 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی 81 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ ایک اور حیران کن نتیجہ متحدہ مجلس عمل نے دیا جس نے 63 نشتیں اپنے نام کیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) محض 18 سیٹیں ہی جیت سکی۔

2007 میں بینظیر بھٹو کی واپسی اور پھر ان کے قتل سمیت دیگر عوامل نے ملک میں جمہوری دور کی راہ ہموار کی

مسلم لیگ (ق) کو کنگز پارٹی کے طور پر بھی جانا جاتا تھا کیونکہ اسے پرویز مشرف نے ہی بنایا تھا۔ اکبر بگٹی کے قتل، لال مسجد کے سانحے اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کی برطرفی کی وجہ سے پرویز مشرف کی مقبولیت اور طاقت میں بتدریج کمی آتی جارہی تھی جس سے نمٹنے کے لیے انہوں نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ابلاغ کے تمام ذرائع پر پابند لگادی۔

جس کے بعد 8 جنوری 2008 کو انتخابات کا اعلان کیا جو 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے 18 فروری کو منعقد ہوئے اور انتخابات کے بعد پرویز مشرف نے صدارت سے استعفیٰ دے کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔

2008 سے 2013

27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو غیر معمولی ہمدردی ملی جس کا نتیجہ انتخابات پر اثر انداز ہوا اور پاکستان پیپلز پارٹی 122 نشستیں لے کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی۔ اس انتخابات میں مسلم لیگ (نواز) دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس نے 92 سیٹیں حاصل کی۔

پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی اور یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم بنائے گئے، جبکہ پرویز مشرف کی جلاوطنی کے بعد آصف علی زرداری ملک کے نئے صدر بنے۔ یوسف رضا گیلانی کی بات کریں تو وہ اپنی مدت پوری نہ کرسکے کیونکہ انہیں توہین عدالت کے جرم میں نااہل کردیا گیا تھا، جس کے بعد یہ عہدہ راجہ پرویز اشرف نے سنبھالا۔

یوسف رضا گیلانی سابق صدر پرویز مشرف سے حلف لیتے ہوئے

اس حکومت کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ یہ پہلی جمہوری حکومت تھی جس نے اپنی مدت پوری کی اور اگلی جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔

2013 سے 2018

پیپلز پارٹی کی حکومت میں امن و امان کی خراب صورتحال اور معیشت کی زبوں حالی کے بعد خیال یہی کیا جارہا تھا کہ اس مرتبہ اقتدار پیپلز پارٹی کو نہ مل سکے، اور ویسا ہی ہوا کیوں کہ ان انتخابات میں مسلم لیگ (نواز) سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی اور اس نے 342 کے ایوان میں مخصوص نشستیں ملا کر 185 سیٹیں حاصل کرلیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر یہ پارٹی بغیر کسی کو ساتھ ملائے حکومت بنانے کے قابل ہوگئی تھی۔

مسلم لیگ (نواز) کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 42 اور پاکستان تحریک انصاف نے 35 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

لیکن اس بار بھی دھاندلی کے الزامات لگے اور خوب لگے۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گنتی کے لیے چار حلقے کھول دیے جائیں تاکہ حقیقت سامنے آجائے مگر حکومت بھی بضد تھی کہ ایسا نہیں کرے گی۔ عمران خان مستقل حکومت کے لیے مشکل پیدا کررہے تھے اور انہوں نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک دھرنا بھی دیا جو 126 دن تک جاری رہا۔

صدر آصف علی زرداری وزیراعظم نواز شریف سے حلف لے رہے ہیں۔ فوٹو: ڈان

اسی دوران پاناما لیکس منظر عام پر آئیں اور بالعموم حکومت اور بالخصوص نواز شریف کے لیے مشکلات بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے بعد نواز شریف نے تحریک چلانے کا عندیہ دیا لیکن یہ تحریک اس وقت دم توڑ گئی جبکہ عدالت نے نواز شریف کو سزا سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا فیصلہ سنایا۔ یوں نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز اور ان کے داماد صفدر اعوان جیل چلے گئے۔

اگرچہ نواز شریف تو وزیراعظم نہیں رہے مگر مسلم لیگ (ن) نے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت نے لگاتار دوسری مرتبہ اپنی میعاد مکمل کی۔

نواز شریف کی بطور وزیرِ اعظم نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ فوٹو پی آئی ڈی/اے پی

2018

خیال یہ تھا کہ نواز شریف کو جیل ہونے کے بعد مسلم لیگ (نواز) ایک مرتبہ پھر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب ایک بار پھر ادھورا رہ جائے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور پاکستان تحریک انصاف پہلی مرتبہ سب سے بڑی پارٹی بن گئی اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی آگئی۔

قومی اسمبلی کے ممبران حلف اٹھاتے ہوئے

342 کے ایوان میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے پاس 158 نشستیں ہیں اور یہ چھوٹی پارٹیوں کو ملانے میں کامیاب ہوگئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (نواز) نے 82، پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 اور متحدہ مجلس عمل نے 15 سیٹیں حاصل کیں۔


فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔

آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔