30 سالہ عظمے خان ایک خاتونِ خانہ اور 2 بچوں کی والدہ ہیں۔ جب میں ان سے پہلی دفعہ کالج میں ملی تھی تو وہ چھوٹے قد کی بھاری بھرکم لڑکی تھیں جسے جنک فوڈ سے محبت تھی، ایکسٹرا لارج سائز کے کپڑے پہنتی تھی، مہاسوں سے نبرد آزما تھی اور اس کے بال جھڑنے شروع ہو چکے تھے۔
کئی سالوں تک ہمارا رابطہ منقطع رہا جس کے بعد گزشتہ ماہ میں نے اور عظمے نے ملاقات کا منصوبہ بنایا۔
جس وقت عظمے اندر داخل ہوئی تو میں اسے پہچان ہی نہیں پائی۔ اس نے کافی وزن گھٹا لیا تھا، اس کی جِلد صاف اور بے داغ تھی، اور اس کے گھنے سیاہ بال کندھوں سے نیچے لٹک رہے تھے۔ مجھے خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا۔
میں نے وہی رٹا رٹایا سوال دہرایا، ’عظمے، تم تو زبردست لگ رہی ہو، راز کیا ہے؟‘
عظمے کھلکھلائی مگر اس کا جواب کافی بورنگ تھا۔ اس نے فاتحانہ انداز میں کہا، ’میں نے جنک فوڈ چھوڑ دیا ہے‘۔
میں نے اس کی توجیہہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا، "یہ سچ نہیں ہو سکتا۔ جنک فوڈ چھوڑنے سے اتنی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟"
وہ کہنے لگی، ’ارے ایسا ہوسکتا ہے۔ غیر صحت بخش کھانا لامحالہ ہمارے جسموں پر بدترین اثرات ڈالتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں ہوتا مگر چھوٹے سے چپس یا ویفرز کے پیکٹ سے بھی ہمارے وزن میں کئی پاؤنڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے، ہمارے خون میں شوگر کی مقدار بڑھ سکتی ہے، سر درد ہو سکتا ہے، اور چہرے پر دانے پیدا ہو سکتے ہیں‘۔
میں نے اس سے پوچھا کہ ’کیا تم نے کوئی ڈائیٹنگ کی یا پھر وزن گھٹانے والی کسی دوائی کا استعمال کیا جو کہ آج کل کافی مشہور ہیں؟‘۔ میں اصل میں اس کی خوبصورت تبدیلی کا راز جاننا چاہ رہی تھی۔
’نہیں، میں نے بس صحت مند اور متوازن غذا کھانی شروع کر دی۔ سوفٹ ڈرنکس کم کر دیں، ہر وقت میٹھا کھانا بند کر دیا، اور اپنی روزمرہ کی غذا میں سبزیاں اور پھل شامل کر لیے۔ اس کے علاوہ میں نے دن میں 5 دفعہ تھوڑی تھوڑی غذا کھانی شروع کی تاکہ دوپہر اور رات کے کھانے میں زیادہ نہ کھا سکوں۔ بظاہر لذیذ نظر آنے والے ان تمام کھانوں سے دھوکہ نہ کھائیں جو آپ کی صحت کے لیے تباہ کن ہیں۔ صحت مند غذاؤں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کا عزم کریں‘۔
عظمے صحیح کہتی ہیں۔ وزن کم کرنے کے لیے پرعزم زیادہ تر لوگ غیر صحت مند، مصالحے دار اور چکنائی بھرے کھانے چھوڑنے کا عزم کرتے ہیں مگر جیسے ہی ان کی ڈائیٹنگ کا دورانیہ پورا ہوتا ہے، تو عادت سے مجبور ہو کر اپنی بری غذائی عادات کی جانب واپس لوٹ جاتے ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی کھانے کی خواہشات کے آگے فوراً ہار مان لیتے ہیں۔ زیادہ کھا لینا ایک آدھ دفعہ کے لیے قابلِ قبول ہے، وزن کم کرنے کے لیے بے تاب سے بے تاب لوگ بھی دوپہر کی بھوک مٹانے کے لیے چپس یا بسکٹس یا پھر چیز سے لدے ہوئے پیزا کھانے سے خود کو نہیں روک پاتے۔
مگر بظاہر معصوم نظر آنے والی ان غذائی عادات کو روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنا لینا پریشان کن ہے۔