پاکستان

برطانوی عدالت کا 3 پاکستانی نژاد مجرموں کو ڈی پورٹ کرنے کا حکم

تینوں افراد پر ایسے گینگ کا حصہ ہونے کا الزام ہے جو کم عمر لڑکیوں کو نشہ استعمال کراکے ان کا جنسی استحصال کرتا تھا۔

کراچی: برطانوی عدالت نے حکومتی فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے بدنامِ زمانہ گرومنگ گینگ کے 3 اراکین کی برطانوی شہریت منسوخ کرتے ہوئے انہیں پاکستان ڈی پورٹ کرنے کے احکامات دے دیے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق اب گینگ کے تینوں پاکستانی شہری برطانیہ میں مزید قیام نہیں کرسکتے اور ممکنہ طور پر انہیں ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا، خیال رہے کہ انہوں نے قانونی طریقے سے برطانوی شہریت حاصل کی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری عبدالعزیز، عادل خان اور قاری عبدالرؤف شمالی انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ان 9 پاکستانیوں اور افغانیوں کے گینگ میں شامل ہیں جنہیں کم عمر لڑکیوں کو نشے اور شراب کے ذریعے جنسی تعلقات میں راغب کرنے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ :'جنسی کاروبار' میں ملوث پاکستانی ڈی پورٹ

ان تینوں مجرموں کو مئی 2012 میں جیل بھیجا گیا تھا تاہم بعد میں ضمانت پر رہا کردیا گیا جبکہ گینگ کا سرغنہ شبیر احمد تاحال زیر حراست ہے جسے 22 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

مذکورہ معاملہ مئی 2015 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب موجودہ وزیراعظم تھریسامے، جو اس وقت وزیر داخلہ تھیں، نے عوامی مفاد میں ان افراد کی شہریت منسوخ کرنے کے احکامات دیے تھے۔

جس پر مذکورہ مجرموں نے حکومتی فیصلے کو 2 امیگریشن ٹریبونیل میں چیلنج کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ شہریت منسوخ کرنے سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تاہم ان کی اپیل مسترد کردی گئی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ سے بے دخل 6افراد پاکستان سے واپس

جس کے بعد مذکورہ افراد نے عدالت سے رابطہ کیا تھا جس کی سماعت میں جج نے ٹریبونیل کے فیصلے کو قانونی طور پر درست قرار دیا اور اب ان افراد کو ڈی پورٹ کیے جانے کا امکان ہے۔

تینوں افراد لیور پول کراؤن کورٹ میں 16 سال سے کم عمر بچوں سے جنسی روابط رکھنے اور جنسی استحصال کے لیے انہیں فراہم کرنے میں ملوث پائے گئے تھے۔

جس پر عبدالعزیز جو خود بھی ایک سرغنہ تھا، کو 9 سال، عبدالرؤف، جو شادی شدہ اور 5 بچوں کا باپ ہے، اسے 6 سال اور عادل خان کو 8 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مختلف ممالک سے ڈھائی لاکھ پاکستانی ڈی پورٹ

بی بی سی کے مطابق تینوں مجرموں کے پاس سزا پوری کرنے کے بعد ڈیپورٹیشن کے خلاف اپیل کرنے کا اختیار ہے اور اس عمل میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔

دوسری جانب برطانوی محکمہ داخلہ کی ترجمان نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی ہولناک مقدمہ تھا، ہم عدالتی حکم کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں آئندہ لائحہ عمل پر غور کریں گے‘۔


یہ خبر 10 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی