نقطہ نظر

پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کیسے بن سکتا ہے؟

مرکزی حکومت کو 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد بھی اپنے پاس موجود شعبوں کی ذمہ داری سے مبرا ہونا ہوگا۔

بیرونی شعبے کے مسائل مثلاً کرنسی بحران کی وجہ سے تجارتی اور صنعتی شعبے کی معاشی بحالی کے منصوبوں کے لیے کیے جانے والے مطالبے کہیں دب سے گئے ہیں۔

عمران خان کے وعدہ کردہ 100 روزہ ایجنڈے پر عملدرآمد خاص طور پر اہم ہے تاکہ انتخابی مرحلہ معنی خیز رہے۔ ووٹروں کو ایسے اقدامات کی توقع ہوگی جو انہیں سماجی فائدے پہنچائیں اور ملازمتیں پیدا کریں۔

کاروبار چاہیں گے کہ حکومت معیشت کو ہموار سطح پر لانے اور صنعتوں کو بند ہونے سے بچانے کے لیے تیزی سے کام کرے۔ اس راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ حکومت کے پاس کیش کی کمی ہے۔ معیشت کو ڈالروں کی کمی کا سامنا ہے، اور سرمایہ کاری دوسری جنوبی ایشیائی ممالک کی نسبت آدھی ہے۔

پی ٹی آئی نے اگلے 5 سالوں میں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ کم قیمت گھر فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ کیا نجی شعبہ کسی فائدے کے بغیر حکومت کی امداد کے لیے آئے گا؟

اس بات کی توقع ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، چین اور سعودی عرب ملکی زرِ مبادلہ ذخائر کو بھرنے کے لیے انتہائی اہم فنڈز فراہم کرنے کے لیے مدد کو آئیں گے۔ چین نے حال ہی میں 2 ارب ڈالر کے قرض کا اعلان کیا ہے جس سے روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوگیا ہے۔

پڑھیے: اس بار ’آئی ایم ایف‘ کے پاس گئے تو وہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گا

مگر آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے قومی کرنسی مزید تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس دفعہ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات مشکل ہوں گے، اور پاکستان جس بیل آؤٹ پیکج کے لیے کوالیفائی کرے گا، وہ شاید پاکستانی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو۔ کچھ کی پیش گوئی ہے کہ آئی ایم ایف اپنے نئے پروگرام کے ساتھ غیر معاشی شرائط بھی لگا سکتا ہے۔

ایک انگلش روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون 'سائیکل آف مسٹیکس' میں منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق نے لکھا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیم، جس کی آمد ستمبر میں متوقع ہے، شاید پاکستان کو "ہمیشہ کی طرح عارضی ریلیف فراہم کرنے میں مدد دے۔ افسوس کی بات ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کی بنیادی کمزوریوں، خراب پالیسی سازی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔"

مالی سال 18-2017 میں مالی خسارہ 7.5 فیصد تک جا پہنچنے کی وجہ سے حکومت کو کیش کی شدید ضرورت ہے۔ اس خلیج کو ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرکے یا تو پورا کرنا ہوگا، یا پھر کم کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کا منشور کہتا ہے کہ مربوط و مضبوط ٹیکس پالیسی اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) میں اصلاحات لا کر ٹیکس کا جال بڑھایا جائے گا جس کی وجہ سے ٹیکس کا نظام پہلے سے بہتر ہوسکے گا۔

کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایف بی آر کو وزارتِ خزانہ کا اثر و رسوخ کم کر کے خود مختاری دی جائے گی۔ ٹیکس وصولی مزید بڑھانے کے لیے کاروباروں کو فوائد کی پیشکش کی جائے گی تاکہ وہ باقاعدہ معیشت کا حصہ بن جائیں۔ پارٹی کا یہ بھی منصوبہ ہے کہ محصولات کا بنیادی ذریعہ بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے بلاواسطہ ٹیکسوں کو بنایا جائے۔

مگر نجی شعبے کا اس پر نکتہءِ نظر مختلف ہے۔ گزشتہ ماہ کے اواخر میں وزیرِ خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے سامنے اپنا 'میک اِن پاکستان' وژن پیش کرتے ہوئے پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے اس بات پر دوبارہ زور دیا کہ پاکستان میں صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری (کیپیٹل فارمیشن) بہت کم ہے کیوں کہ پیداواری شعبہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

مجموعی قومی پیداوار میں 13.5 فیصد حصے کے ساتھ پیداواری شعبہ قومی ٹیکس وصولی میں 58 فیصد کا حصہ دار ہے۔ پی بی سی کے وفد نے حکومت سے 'بہترین خطوط پر استوار حکومتی پالیسیوں' کا مطالبہ کیا جن سے ملازمتیں پیدا ہوں، برآمدات میں اضافہ ہو، درآمدات کے متبادل پیدا ہوں، اور حقیقت کے قریب تر شرحِ مبادلہ ہو۔ زراعت اور خدمات کے شعبے سے ٹیکس حاصل کرنا مشکل ہے کیوں کہ یہ عمومی طور پر غیر رسمی شعبے میں آتے ہیں۔

پڑھیے: ‘آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ’؛ پاکستانی معیشت کا اصل مسئلہ

پی ٹی آئی ان کاروباروں کو رسمی شعبے میں لانے کے لیے کیا فوائد پیش کرتی ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ معاشی ترقی کو بڑھتے ہوئے خطرے اور وسائل کی نجی شعبے سے سرکاری شعبے منتقلی کے وقت میں بلاواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ شاید اچھا فیصلہ نہ ہو۔

مرکزی حکومت کو ان شعبوں کی ذمہ داری سے مبرا ہونا ہوگا جو کہ اس نے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد بھی اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ ممکنہ طور پر اگلے وزیرِ خزانہ اسد عمر کہتے ہیں "ریاست کی ملکیت میں موجود اداروں کا مسئلہ غیر ضروری ملازمین یا پھر ان ملازمین کے اخراجات نہیں بلکہ سیاسی سرکاری افسران ہیں جو کہ ان یونٹس کو چلانے کے ذمہ دار ہیں۔"

پارٹی کا منصوبہ ہے کہ ان یونٹس کی بحالی کے لیے ان کی قیادت پروفیشنل انتظامیہ سے بدل دی جائے اور ان کے خساروں کو کم کیا جائے جو کہ فی الوقت اندازاً 1100 ارب ڈالر ہیں۔ مگر سپریم کورٹ کا ریاست کی ملکیت میں موجود کمپنیوں کے سی ای اوز کی تنخواہ سے متعلق فیصلہ زبردست تجربہ رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز کی بھرتی میں شاید رکاوٹ بنے۔ ایک طویل مدتی اسٹریٹجک نکتہ نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی اپنے منشور میں فلاحی ریاست کے اسکینڈی نیوین ماڈل کے تحت ٹیکس بڑھانے کی بات کرتی ہے۔

یہ ماڈل فری مارکیٹ سرمایہ دارانہ نظام، اور رضاکار، مخیر ٹیکس دہندگان کی جانب سے پیش کردہ سماجی فوائد کا ایک امتزاج ہے جس کا انتظام حکومت سنبھالتی ہے۔ شہریوں کا حکومت پر بھروسہ ہوتا ہے کیوں کہ حکومت انہیں اعلیٰ معیار کی سماجی خدمات بشمول مفت تعلیم اور سب کے لیے مفت طبی سہولیات فراہم کرتی ہے۔

شہری خود کو اور اپنے خاندانوں کو حاصل ان فوائد کے بدلے میں زیادہ ٹیکس دینے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ اسکینڈی نیوین ماڈل کی طرح پی ٹی آئی کا اسلامی فلاحی ریاست کا تصور بھی "قانون کی حکمرانی اور معاشی مساوات کی بنیاد پر قائم ایک منصفانہ معاشرے" کے قیام کی بات کرتا ہے۔

سندھ حکومت ایک نئے راستے پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سرکاری و نجے شعبے کی شراکت داری کے تحت سندھ میں پی پی پی حکومت اچھا ٹریک ریکارڈ رکھنے والے نجی شعبے کے نامور اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ 10 سالہ معاہدے کر رہی ہے تاکہ اسکولوں اور ہسپتالوں کو مجوزہ بلند معیارات کے تحت چلایا جاسکے۔

ان اداروں کو ایک مینیجمنٹ فیس ادا کی جاتی ہے۔ آزاد آڈیٹر ان کی مالیاتی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں جبکہ آزاد مانیٹر ان کی مجموعی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری کے تحت صحت و تعلیم کی بہتر سہولیات فراہم کرنا طویل مدت میں ریاست کی زیرِ ملکیت اداروں میں اصلاحات سے زیادہ تیز تر ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں 6 اگست 2018 کو شائع ہوا.

جاوید بخاری

لکھاری سے ان کے ای میل ایڈریس jawaidbokhari2016@gmail.com پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔