پاکستان

سی پیک منصوبہ: 22 ارب روپے کے خصوصی فنڈز پر سوالات اٹھ گئے

سی پیک کے خلاف نہیں لیکن ان منصوبوں کو 22 فیصد ادائیگی یقینی بنانا مزید گردشی قرضے بڑھانے کی راہ کھولے گا، رکن سینیٹ

اسلام آباد: سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے تحت بجلی کی پیداوار کرنے والوں اور سرمایہ کاروں کو ترجیحی ادائیگیوں کے لیے 22 ارب روپے کے پاور سیکٹر روولونگ فنڈ بنانے کے خصوصی انتظامات پر سوالات اٹھادیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سینیٹر اور گردشی قرضے پر قائم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے سربراہ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وہ سی پیک کے خلاف نہیں لیکن حیران ہیں کہ آیا ان منصوبوں کو 22 فیصد ادائیگی یقینی بنانا مزید گردشی قرضے بڑھانے کیلئے راہ کھولے گا کیونکہ ان منصوبوں کے لیے حکومت کو تجارتی قرضے کی ضرورت پیش آنی تھی۔

مزید پڑھیں: مالی بحران کے باعث سی پیک کے مختلف منصوبے تعطل کا شکار

اس موقع پر جوائنٹ سیکریٹری پاور ڈویژن زرغم اسحٰق خان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کبور پلس کی 4 فیصد شرح پر تجارتی قرضوں کی ضرورت ہوگی لیکن ان کی ڈویژن سوائے سی پیک کے تحت پاکستان اور چین کی حکومتوں کے درمیان معاہدے پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ اب تک روولونگ فنڈ کو عملی شکل نہیں دی گئی لیکن اس سے قبل پاور ڈویژن کی جانب سے کابینہ کو ایک سمری ارسال کی گئی تھی، جس میں واضح بتایا گیا تھا کہ سی پیک کے دستخط کے موقع پر اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ 78 فیصد وصولیوں کی صورت میں 22 فیصد ادائیگی کی جائی گی، تاہم وصولیوں میں اب تک بہتری آئی اور شارٹ فال بھی 10 سے 12 فیصد ہوگیا جس کے بعد اس رقم پر بھی نظرثانی کی جانی چاہیے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا ) نے رپورٹ میں کہا تھا کہ بجلی کی چوری اور وصولیاں نہ ہونے کی وجہ سے واپڈا کی سابق تقسیم کار کمپنیاں ( ڈسکوس ) کو سالانہ 170 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے، اس کے علاوہ ناقابل یقین گردشی قرضے کے بعد حکومت نے ایک سال کے دوران صارفین کی ادائیگی پر 121 ارب روپے سرجارچ عائد کیا۔

اس معاملے پر کمیٹی کے سامنے نیپرا کے چیئرمین طارق سادوزئی کا کہنا تھا کہ بجلی کی چوری، نظام کی خامی کم ہونے اور وصولیوں میں بہتری تک گردشی قرضے پر قابو نہیں پایا جاسکتا کیونکہ اس صورتحال کےباعث صارفین کو 11 روپے 50 پیسے فی یونٹ بجلی کی بجائے 19 روپے فی یونٹ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے فائدے پاکستان، چین کیلئے یکساں ہیں، احسن اقبال

انہوں نے بتایا کہ ریگولیٹر کی جانب سے حکومت کے اس مطالبے کو منظور کیا گیا جس میں انہیں تیل کی قیمتیں گرنے پر 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ماہانہ فیول ایڈجسمنٹ کی مدد میں 99 ارب روپے برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی جبکہ سال 16-2015 میں حکومت نے حیران کن طور پر 157 ارب روپے کی سبسڈی دی۔

اس کے علاوہ ڈسکوس کو بھاری نقصان، سال کی ایڈجسمںٹ اور قرضے کے باعث 80 ارب روپے کے الاؤنس کی مزید گرانٹ دی گئی۔تاہم اس موقع پر فنانس ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کے محکمے نے خودمختار ضمانت دینے کے لیے بینکوں سے 180 ارب روپے کا انتظام کیا تھا، جس میں سے صرف 80 ارب روپے توانائی کی لاگت جبکہ بقیہ 100 ارب روپے نجی پروڈیوسرز کو صلاحیت کی ادائیگیوں کے حوالے سے ادا کیے گئے تھے۔