کراچی جو اِک شہر تھا (چوتھا حصہ)
یہ اس سیریز کا چوتھا بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا اور تیسرا حصہ پڑھیں۔
1979ء کے وسط میں ہم قائدآباد لانڈھی والا گھر چھوڑ کر ملیر کھوکھراپار منتقل ہوگئے۔ کھوکھراپار کا سرکاری نام ’ملیر توسیعی کالونی‘ تھا کیونکہ یہ آبادی ’ملیر کالونی‘ میں توسیع کرکے بنائی گئی تھی۔
ملیر کالونی، کالابورڈ اسٹاپ سے شروع ہوکر ملیر ندی تک چلی گئی ہے۔ اس میں پہلے سعود آباد تک A, B, C اور D بلاک ہوا کرتے تھے۔
60ء کی دہائی میں یہ کالونی مہاجرین کے لیے بنائی گئی تھی اور اس وقت اسے ’ملیر مہاجر کالونی‘ کہا جاتا تھا۔ جب یہ کالونی بن رہی تھی تو اس وقت گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سعود پاکستان آئے۔ انہیں جب ملیر مہاجر کالونی کا دورہ کروایا گیا تو انہوں نے مکانات کی تعداد میں اضافے کے لیے عطیہ دینے کا اعلان کیا۔
چنانچہ اس عطیے سے جو مزید 2 بلاک تعمیر کیے گئے انہیں سعود آباد وَن (S-1) اور سعود آباد ٹو (S-2) کا نام دیا گیا، بلکہ شاہ سعود کی عطیہ کردہ اسی رقم سے سعودآباد گرلز کالج بھی تعمیر کیا گیا تھا۔