نقطہ نظر

کراچی جو اِک شہر تھا (چوتھا حصہ)

جب تک کشتی کےمقابلے چلے ابا نےٹی وی پر اعتراض نہ کیا لیکن جیسےہی مقابلے ختم ہوئےابا ٹی وی کو قہر آلود نظروں سے دیکھنےلگے

یہ اس سیریز کا چوتھا بلاگ ہے۔ پہلا، دوسرا اور تیسرا حصہ پڑھیں۔


1979ء کے وسط میں ہم قائدآباد لانڈھی والا گھر چھوڑ کر ملیر کھوکھراپار منتقل ہوگئے۔ کھوکھراپار کا سرکاری نام ’ملیر توسیعی کالونی‘ تھا کیونکہ یہ آبادی ’ملیر کالونی‘ میں توسیع کرکے بنائی گئی تھی۔

ملیر کالونی، کالابورڈ اسٹاپ سے شروع ہوکر ملیر ندی تک چلی گئی ہے۔ اس میں پہلے سعود آباد تک A, B, C اور D بلاک ہوا کرتے تھے۔

60ء کی دہائی میں یہ کالونی مہاجرین کے لیے بنائی گئی تھی اور اس وقت اسے ’ملیر مہاجر کالونی‘ کہا جاتا تھا۔ جب یہ کالونی بن رہی تھی تو اس وقت گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سعود پاکستان آئے۔ انہیں جب ملیر مہاجر کالونی کا دورہ کروایا گیا تو انہوں نے مکانات کی تعداد میں اضافے کے لیے عطیہ دینے کا اعلان کیا۔

چنانچہ اس عطیے سے جو مزید 2 بلاک تعمیر کیے گئے انہیں سعود آباد وَن (S-1) اور سعود آباد ٹو (S-2) کا نام دیا گیا، بلکہ شاہ سعود کی عطیہ کردہ اسی رقم سے سعودآباد گرلز کالج بھی تعمیر کیا گیا تھا۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے ہمراہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سعود

شاہ سعود شہید ملت لیاقت علی خان کے مقبرے پر

ملیر توسیعی کالونی سعودآباد کے بعد شروع ہوتی تھی جو A ایریا سے H ایریا تک 8 بلاکوں پر مشتمل تھی۔ یہاں کے ڈی اے KDA نے 100 اور 80 گز رقبے پر ایک کمرے، ایک باورچی خانے، ایک غسل خانے اور بقیہ خالی پلاٹ کے وسیع صحن پر مشتمل گھر بنا کر لوگوں کو معمولی قیمت پر دیے تھے۔ بعدازاں لوگوں نے اپنی ضرورت کے مطابق کمروں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا، البتہ وہ پہلا کمرہ ہر گھر میں ’کے ڈی اے والا کمرہ‘ ہی کہلاتا تھا۔ ابّا نے جو گھر خریدا تھا اس میں ایک تو وہی کے ڈی اے والا کمرہ تھا، جبکہ ہم نے پلاٹ کے ہر کونے میں ایک ایک کمرہ مزید تعمیر کرکے اسے چار کمروں والا گھر بنا دیا تھا۔

اُس سال ایک اور چیز ہوئی جس نے میری آنے والی زندگی پر بہت زیادہ اثر ڈالا۔ ابّا کے ایک دوست پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائینز (پی آئی اے) میں ملازم تھے۔ اس زمانے میں پی آئی اے کی ہر سال بڑی خوبصورت ڈائری شائع ہوا کرتی تھی۔ ایک دن ابّا کے ان پی آئی اے والے دوست نے مجھے سال 1979ء کی ڈائری لاکر دی۔ یہ ڈائری کیا تھی، میرے لیے ایک نئی دنیا کا دروازہ تھی۔ چمڑے کی نرم جلد بندی اور سنہرے ٹائٹل کے ساتھ جہاں یہ دیکھنے میں بڑی دلکش تھی، وہیں اس کے اندر جو کچھ تھا وہ بھی کم دلفریب نہ تھا۔ اس کے ہر صفحے پر پاکستان کے مختلف علاقوں کی 2، 2 بہت خوبصورت رنگین تصاویر بھی موجود تھیں۔

شمالی علاقوں کے پہاڑوں، دریاؤں اور سرسبز وادیوں کے پُرکشش مناظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سارے خطوں کے خوبصورت مناظر کی تصاویر نے جہاں مجھے اپنے وطنِ پاکستان سے عشق میں مبتلا کیا، وہیں میرے من میں جو ایک سیاح کہیں خوابیدہ تھا، اسے بھی بیدار کردیا۔ اس ڈائری کو میں نے اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کی مختلف تاریخوں میں بچکانہ انداز میں کچھ روزنامچے بھی تحریر کیے۔ یہ ڈائری میرے پاس آج بھی محفوظ ہے اور جب کبھی اسے کھول کر دیکھتا ہوں تو اپنے ابتدائی دور میں واپس پہنچ جاتا ہوں۔ اس ڈائری نے مجھے لکھنے کی طرف بھی ایسا مائل کیا کہ آج تک لکھے چلا جا رہا ہوں۔

میرا اسکول گھر سے 10 سے 12 کلومیٹر دور کالا بورڈ اسٹاپ کے قریب تھا اور میں سائیکل پر اسکول جایا کرتا تھا۔ اس روزانہ کی سائیکل سفاری سے جہاں میری جسمانی نشو و نما میں بہتری آئی، وہیں میری مشاہدے کی صلاحیت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ زندگی ایک مخصوص زاویے پر چل رہی تھی کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ہنگامہ خیز واقعہ ظہور پذیر ہوگیا۔ ملک پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور 4 اپریل 1979ء کے دن پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اس پھانسی پر جہاں پورے ملک میں ایک کہرام مچا وہیں ہمارے گھر میں بھی صفِ ماتم بچھ گئی۔

ہمارا گھرانہ کٹر پیپلز پارٹی حامی تھا۔ پھانسی کی خبر آتے ہی میری والدہ اور بہنوں کی آہ و بکا بلند ہوئی۔ ہمارے محلے میں تقریباً سارے ہی لوگ پیپلز پارٹی کے حامی تھے۔ محلے بھر کی عورتیں ہمارے گھر میں جمع ہوگئیں اور جس طرح گھر کے کسی بڑے کی وفات پر سسکیوں سے رویا جاتا ہے اور بین کیے جاتے ہیں، اسی انداز میں وہ سب ہوا۔ حتیٰ کہ جس طرح فوتگی والے گھر میں 3 دن تک کھانا نہیں پکتا اور محلے والے بھیجتے ہیں، وہ بھی دیکھا۔ میری والدہ اور بہنوں نے رو رو کر اپنی آنکھیں سُجالیں۔ میں نے اپنی ڈائری میں 4 اپریل 1979ء کے اس افسوسناک دن کے حوالے سے ایک جذباتی تحریر لکھی، بلکہ ایک شعر بھی لکھنے کی کوشش کی تھی۔ یہ میری زندگی کا پہلا شعر تھا۔ 40 سال پرانی وہ تحریر اس ڈائری میں آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔

ملیر کالونی کا نقشہ

میرا بچوں کے رسالوں کا مطالعہ پوری آب و تاب سے جاری تھا اور میں کراچی اور لاہور سے نکلنے والے کئی رسالے ہر ماہ باقاعدگی سے خریدتا تھا۔ سب سے زیادہ محبوب رسالے 2 تھے، فیروز سنز لاہور کا ماہنامہ ’تعلیم و تربیت‘ اور حکیم محمد سعید کا ماہنامہ ’ہمدرد نونہال‘۔ جتنا مجھے پڑھنے کا شوق تھا اتنا ہی لکھنے کا بھی تھا۔ میرے لیے یہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی کی کسی رسالے یا اخبار میں میری تحریر اور میرا نام شائع ہو۔

مجھے یاد ہے کہ میری پہلی تحریر ماہنامہ تعلیم و تربیت کے مئی 1979ء کے پرچے میں شائع ہوئی تھی۔ یہ صرف ایک جملہ ہی تھا جس کا موضوع پچھلے شمارے میں دیا گیا تھا اور لکھ کر بھیجنے والوں کے منتخب جملے اس ماہ کے رسالے میں شائع کیے گئے تھے۔ کراچی کے کسی محلے میں رہنے والے ایک بچے کا تحریر کردہ جملہ لاہور میں شائع ہونے والے ایک رسالے میں اس کے نام کے ساتھ طبع ہوکر آنا بڑا ہیجان خیز تھا۔ مجھے یوں لگا کہ میں شاید اچھا لکھ سکتا ہوں، چنانچہ اس کے بعد میں کئی مہینوں تک کچھ نہ کچھ لکھ کر رسالوں کو بھیجتا رہا۔ شائع کچھ بھی نہ ہوا۔ مایوس ہوکر میں نے رسالوں کے لیے لکھنا چھوڑ دیا اور صرف ڈائری لکھنے پر اکتفا کیا۔

کھوکھراپار کی آبادی نمبر وار تقسیم تھی اور ہر بس اسٹاپ کو نمبر دیے گئے تھے۔ کھوکھراپار کے نمبر ایک سے نمبر 6 تک اسٹاپ تھے۔ اس پورے علاقے کا مرکز کھوکھراپار ڈاک خانہ چوک تھا جہاں موجود پوسٹ آفس کے اطراف میں سودا سلف کی دکانیں اور ایک عدد سبزی گوشت مارکیٹ تھی۔ لیکن یہاں میری دلچسپی کا مرکز یہ مارکیٹ نہ تھی بلکہ پوسٹ آفس سے متصل ’پاریکھ بک اسٹال‘ تھا کہ جہاں ملک بھر کے سارے رسالے، بچوں کے ناول اور ادبی کتابیں ملا کرتی تھیں۔ میں جب بھی ڈاکخانہ چوک سے گزرتا تو پاریکھ بک اسٹال پر کچھ دیر ضرور گزارتا۔

کھوکھراپار ڈاک خانہ پر قدیم پاریکھ بک اسٹال

کبھی کبھی کوئی رسالہ یا کتاب خرید بھی لیتا تھا۔ دکان کے مالک پاریکھ صاحب عام طور پر غصے میں رہتے تھے، لیکن مجھے انہوں نے کبھی اپنی دکان سے نہیں بھگایا۔ اس دور کو آج 30 سال گزر گئے، لیکن خوشی کی بات ہے کہ اس مقام پر پاریکھ بک اسٹال آج بھی موجود ہے۔

کھوکھراپار کی اس کچھی آبادی کے رہائشی فلم اور ٹی وی کے رسیا تھے۔ ہمارے سامنے والا گھر حاجی ستار صاحب کا تھا۔ وہ حال ہی میں سعودی عرب میں کئی سال ملازمت کے بعد واپس لوٹے تھے اور اپنے ساتھ جو سب سے کارآمد چیز لے کر آئے تھے، وہ ایک عدد ٹی وی تھا، نیشنل کا جاپانی رنگین ٹیلی ویژن۔ رنگین ٹی وی اس زمانے میں چونکہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا، اس لیے ہمارے پورے بلاک میں یہ ٹی وی مشہور ہوگیا اور محلے بھر سے عورتیں اور بچے سر شام ہی حاجی ستار کے گھر میں ٹی وی کے سامنے آکر بیٹھ جاتے اور خبرنامہ آنے تک یہ رونق لگی رہتی۔

کھوکھراپار ملیر میں ہمارا محلہ

اس زمانے میں کیبل ٹی وی تو ہوتا نہیں تھا، صرف اینٹینا کے ذریعے پی ٹی وی چلتا تھا۔ بس پھر سب لوگ وہی دیکھتے تھے۔ پھر ایک عجیب جنون بھی سامنے آیا۔ مشہور یہ ہوا کہ اگر اینٹینا میں لگے المونیم کے پائپوں کے ساتھ المونیم ہی کے ایک بڑے سے تھال کا بھی اضافہ کردیا جائے تو پی ٹی وی کے ساتھ مسقط عمان کی نشریات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ مسقط ٹی وی اس زمانے میں انڈین فلمیں بھی نشر کرتا تھا۔ اس انکشاف کے ہوتے ہی کراچی میں برتن کی دکانوں پر وہ یلغار ہوئی کہ الامان۔ المونیم کی بڑے سائز کی پلیٹیں، تھال اور تغاریوں کی فروخت میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ اکثر گھروں کی چھتوں پر شام ہوتے ہی لڑکے بالے انٹینا کے ساتھ لٹکے نظر آتے۔

اس زمانے میں کیبل ٹی وی تو ہوتا نہیں تھا، صرف اینٹینا کے ذریعے پی ٹی وی چلتا تھا

تھال والے ’ڈش‘ انٹینا کو اِدھر اُدھر گھما پھرا کر عمان کی نشریات وصول کرنے کی کوشش کی جاتی۔ نیچے ٹی وی کے سامنے کھڑا شخص چیخ چیخ کر اوپر اینٹینا سے مصروف پیکار شخص کو ہدایات دیتا رہتا اور بالآخر عمان ٹی وی نشریات کا دھندلا سا دانے دار عکس وصول ہوتے ہی نعرہ گونجتا اور اوپر والے بھی نیچے آ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے اور اس غیر واضح نشریات کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے۔بعد ازاں طرح طرح کے بنے بنائے انٹینا مارکیٹ میں ملنے لگے۔ ان کا رخ بدلنے کے لیے آٹومیٹک موٹریں بھی دستیاب ہونے لگیں۔ جتنا بڑا انٹینا، اتنا واضح چینل۔ ہمارے سامنے والے گھر کے ٹی وی پر عمان کی نشریات سب سے اچھی آتی تھی۔

محلے کے دیگر بچوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی شام کو سامنے والے گھر جاکر ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتے۔ اکثر ابّا گھر واپس آتے تو ہم انہیں گھر میں موجود نہ ملتے۔ ایک دن ہم حاجی ستار کے گھر میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ ابّا غصے میں بھرے وہیں پہنچ گئے۔ باہر بلا کر جہاں انہوں نے ہمیں ایک ایک دھپ رسید کیا وہیں حاجی ستار کو بھی کھری کھری سنائی کہ ’تم نے یہ کیا شرفاء کے محلے میں مفت کا سینما کھول رکھا ہے‘۔ اگلے کئی دن ہم ٹی وی دیکھنے نہیں گئے۔ بالآخر ایک دن ڈرتے ڈرتے دوبارہ وہاں پہنچے تو حاجی ستار نے ابّا کا طعنہ دے کر ہمیں واپس بھگا دیا۔

خدا کا کرنا یہ ہوا کہ انہی دنوں جاپان کے مشہور انوکی پہلوان اور پاکستان کے معروف جھارا پہلوان کے درمیان کشتی کا مقابلہ منعقد ہوا۔ پہلوانوں کے بیچ یہ زور آزمائی تقریباً کفر و اسلام کے درمیان معرکے کا روپ اختیار کر گئی۔

انوکی پہلوان کی حالیہ تصویر

یہ مقابلے ٹی وی پر براہِ راست دکھائے جانے تھے۔ نہ جانے کیسے ابّا کو بھی انوکی اور جھارا پہلوان کی اس کشتی میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔

اماں نے موقع غنیمت جان کر ابّا سے کہا ’اگر ہمارے گھر میں بھی ٹی وی ہوتا تو یہ مقابلے آپ بھی گھر میں ہی بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے‘۔ ابّا نرم پڑگئے اور انقلاب آگیا۔ اگلے دن ہم حاجی ستار ہی کی مدد سے کالا بورڈ کی مشہور دکان ’مدینہ ٹی وی سینٹر‘ سے توشیبا کمپنی کا لکڑی کے ڈبے والا 21 انچ کا بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی خرید کر لے آئے۔

جب تک کشتی کے مقابلے چلتے رہے، ابّا نے ٹی وی پر کوئی اعتراض نہ کیا، لیکن جیسے ہی یہ مقابلے ختم ہوئے، ابّا ٹی وی کو قہر آلود نظروں سے دیکھنے لگے۔ انہوں نے اسے شیطانی ڈبے کا نام دیا۔ ایک دن رات گئے ٹی وی پر مشہور ڈرامہ ’دبئی چلو‘ آ رہا تھا۔ ابّا گھر پر نہیں تھے اس لیے ہم بہن بھائی جاگ رہے تھے اور ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ اچانک ابّا گھر میں داخل ہوئے اور ہمیں اس وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھا دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ گیا۔ جس دوران بڑے بھائی اور بہن کی پٹائی ہوئی، اس دوران ہم بھاگ کر اپنے بستروں میں دبک گئے۔ اس کے بعد کئی دن ٹی وی بند رہا۔

اس زمانے میں ملیر میں (اور کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی) شادی بیاہ کے مواقع پر طعام کے ساتھ ساتھ ’فلم نمائش‘ کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔ شادی سے ایک رات پہلے محلے میں کھلی جگہ پر بانس کھڑے کرکے سفید کپڑے کی اسکرین باندھ دی جاتی تھی اور پھر رات گئے تک سینما پروجیکٹر کے ذریعے اردو، سندھی یا پنجابی فلم مفت دکھائی جاتی تھی۔

کھوکھراپار ای ایریا میں ہماری گلی کا منظر

یہ فلمیں عام طور پر وہ ہوتیں جو سینماؤں میں چل چل کر تھک چکی ہوتی تھیں۔ ان فلموں کی گھسی ہوئی ریلیں یہ پروجیکٹر والے سستے داموں خرید لیتے تھے اور پھر محلے کی شادیوں میں فلم شو چلایا کرتے تھے۔ ملیر میں لیاقت مارکیٹ کے پاس اس طرح کے فلم پروجیکٹر والوں کی کئی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔

ہماری گلی میں بھی کئی شادیوں میں اسی طرح فلمیں دکھائی گئیں۔ ہمارا گھر چونکہ گلی کے بالکل بیچ میں تھا اس لیے فلم کا پردہ ہمارے دروازے پر ہی تانا جاتا تھا۔ پردے کے دونوں اطراف میں زمین پر لال دریاں بچھا دی جاتی تھیں۔ سفید پردے پر پروجیکٹ کی جانے والی فلم اسکرین کے دونوں طرف سے نظر آتی تھی۔ پروجیکٹر والی سائڈ پر مرد بیٹھتے تھے اور دوسری سائڈ پر عورتیں۔ عورتوں کو فلم الٹ نظر آتی تھی، یعنی دائیں چیز بائیں دکھائی دیتی تھی۔ فلم اسکرین والے بانسوں کے اوپر بھونپو والے لاؤڈ اسپیکر باندھ دیے جاتے تھے اور پھر رات گئے تک پوری گلی میں فلم کے ڈائیلاگ اور گانے گونجتے رہتے تھے۔ ایسی راتوں میں ابّا بہت بے چین اور ہم ان کے غصے سے خوفزدہ رہتے تھے۔

ہمارا گورنمنٹ آصف بوائز اینڈ گرلز سیکنڈری اسکول ایک ’سرکاری اسکول‘ تھا جس کے لیے ’پیلا اسکول‘ کی طنزیہ اصطلاح استعمال ہوتی تھی اور اب بھی ہوتی ہے۔ یہ صبح کے وقت گرلز اور شام میں بوائز اسکول ہوا کرتا تھا۔ یہ کسی زمانے میں پرائیویٹ اسکول تھا اور بھٹو حکومت میں قومیائے جانے کے بعد سرکاری اسکول بن گیا تھا۔ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار عام طور سے اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن ہمارا یہ اسکول بہت بہتر تھا۔ یہاں اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ بے شمار غیر نصابی سرگرمیاں بھی جاری رہتی تھیں۔ سالانہ کھیل، سالانہ فنکشن، عید میلادالنبی کے جلسے، پکنک، سرکاری تقریبات میں شرکت اور اسی طرح کی کئی سرگرمیوں میں شمولیت نے ہمارے ذہن کھولے اور شخصیت میں اعتماد پیدا کیا۔

گورنمنٹ آصف بوائز اینڈ گرلز سیکنڈری اسکول

آصف بوائز سیکنڈری اسکول

مجھے یاد ہے کہ سندھ اولمپکس کے مقابلوں میں ہمارے اسکول نے بھی شرکت کی تھی اور جب نیشنل اسٹیڈیم میں ان کھیلوں کی افتتاحی تقریب میں صدر ضیاء الحق آئے تو ہم اپنے اسکول کی طرف سے وہاں موجود تھے۔ ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ ملک کے حکمران کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اسی طرح ٹی وی اور ریڈیو پر طلبہ کے جو معلوماتی پروگرام ہوا کرتے تھے ان میں ہمارے اسکول کے طالب علم بھی حصہ لیتے تھے اور انعام جیت کر آتے تھے۔ اپنے اسکول کی طرف سے ایک مرتبہ میں بھی ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام ’بزم طلبہ‘ میں شریک ہوا تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر ادبی ذوق رکھتے تھے اور ان سے ملنے کے لیے اکثر ادبی شخصیات ہمارے اسکول آتی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں گیا تو وہاں ایک لمبے بالوں والی سنجیدہ سی شخصیت تشریف فرما تھی۔ ہیڈ ماسٹر نے مجھے ان سے ہاتھ ملانے کو کہا اور بتایا کہ یہ پاکستان کے مشہور شاعر صہبا اختر ہیں۔ ایک مرتبہ پاکستان کے ایک معروف اخبار کے ایڈیٹر ضیاء شاہد کا خط ہمارے اسکول کے نام آیا جس میں اسکول کے کسی طالب علم کو ان کی ادبیاتِ اطفال کمیٹی کی ممبرشپ کے لیے نام بھیجنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے بُلا کر یہ خط دکھایا اور کہا کہ ہم اس کے لیے آپ کا نام بھیج رہے ہیں۔ضیاء شاہد صاحب کو بھی یقیناً وہ دور یاد ہوگا۔

آصف اسکول ہی کی طرف سے میں اپنی زندگی کی پہلی پکنک پر بھی گیا۔ کراچی والے پکنک کے لیے عام طور پر ٹھٹہ کا رخ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ کراچی کے قریب اور سرسبز و پُرفضا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی مقام بھی تھا۔ ٹھٹہ کی شاہجہانی مسجد، مکلی کا تاریخی قبرستان اوربھنبھور میں محمد بن قاسم کے آثار کے ساتھ ساتھ یہاں کی سب سے بڑی کشش کلری جھیل ہے۔ کلری جھیل صاف شفاف پانی کا ایک میلوں وسیع سوئمنگ پول ہے کہ جہاں کراچی کے لوگ ڈبکیاں لگا کر اپنی سال بھر کی گرمی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آصف اسکول کے اساتذہ اور ہم جماعتوں کے ساتھ ایک تصویر

چنانچہ ہمیں بھی اسکول کی طرف سے ٹھٹہ میں پکنک کی خوشخبری سنائی گئی اور فی کس 10 روپے جمع کرانے کا کہا گیا۔ میں نے امّاں سے 10 روپے مانگے تو انہوں نے فوراً دے دیے اور کہا کہ پکنک سے جلدی گھر واپس آجانا ورنہ ابّا بہت ناراض ہوں گے۔

بہرحال پکنک والے دن ہم صبح ہی اسکول کے سامنے پہنچ گئے۔ یہاں 2 بسیں ہمیں لے جانے کے لیے موجود تھیں۔ بسیں ملیر سے نکلیں اور قائد آباد سے آگے آتے ہی شہر ختم ہوگیا۔ دھابیجی سے آگے آکر ہماری بس نے جیسے ہی گجو کینال کا پل عبور کیا تو سڑک پر اچانک ایک اونٹ بس کے سامنے آگیا۔ ڈرائیور نے فوراً بریک لگایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا اور اونٹ کا سر ایک دھماکے سے ونڈ اسکرین کے ساتھ ٹکرا گیا۔ شیشہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا اور اونٹ ٹکر سے ایک طرف کو گرگیا۔ بس رک گئی۔ اسی وقت پیچھے سے کچھ مقامی لوگ شور مچاتے ہوئے گاڑی کی طرف آتے نظر آئے۔ ایک ٹیچر نے ڈرائیور کو فوراً گاڑی بھگانے کو کہا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لوگ بس کو نقصان پہنچائیں گے۔

کلری جھیل ٹھٹہ

چنانچہ ڈرائیور نے گاڑی دوڑا دی۔ ونڈ اسکرین ٹوٹ جانے کے باعث اب سامنے سے فراٹے دار ہوا بس میں داخل ہو رہی تھی لیکن ہمیں نہ یہ ہوا کوئی مزا دے رہی تھی اور نہ ہی ارد گرد کے مناظر میں کوئی کشش رہی تھی۔ ہم تو بس اب حملہ آوروں کے ڈر سے سہمے ہوئے تھے۔ دونوں بسیں کچھ دیر میں کلری جھیل پہنچ گئیں۔ طے یہ ہوا کہ واپسی تھوڑی دیر سے کی جائے گی تاکہ گجو کینال سے گزرتے ہوئے رات کا اندھیرا چھا جائے اور زخمی اونٹ کے مالکان ہمیں پہچان کر پکڑ نہ پائیں۔

مجھے پکنک کی خوشی سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ شام کو وقت پر گھر پہنچ جاؤں، ورنہ ابّا ماریں گے۔ لیکن یہاں تو میرے قتل کا ساماں ہورہا تھا۔ یعنی مغرب تک کراچی پہنچنا تو کیا، ہم ٹھٹہ ہی سے نہیں نکل سکتے تھے۔ جل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو۔

ہم مغرب کے بعد ٹھٹہ شہر سے نکلے اور رات 9 بجے کے قریب گجو کینال کے پل پر ایکسیڈنٹ والے مقام سے سہمے سہمے گزرے تو وہاں کوئی بھی لڑنے کے لیے ہمارا انتطار نہیں کر رہا تھا۔ سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ میں رات 11 بجے ابّا کے خوف سے لرزتا گھر میں داخل ہوا تو امّی اور نانی کو بے چینی سے انتظار کرتا پایا۔ امّی نے مجھے گلے لگالیا۔ میں نے پوچھا ابّا کہاں ہیں؟ امّی نے بتایا کہ وہ سو رہے ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ تم پکنک پر گئے ہوئے ہو۔ میں گجو کینال کے پل پر جو اطمینان کا سانس ’نہیں‘ لے پایا تھا، وہ اب لے لیا۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔