مہندی سے آراستہ ہاتھ، چوڑیوں کی کھنک، ڈھولک کی تھاپ، سُرخ جوڑے کی بہار، ساجن کا ساتھ، اپنی چھت اپنا آنگن اور دوڑتے بھاگتے بچوں کی شوخیاں، ہر لڑکی چاہے وہ معذور ہو یا غیر معذور اپنی آنکھوں میں یہی خواب بسائے ساری زندگی بتا دیتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں موجود جسمانی طور پر معذور خواتین کو اس خواب کی تکمیل کے لیے بے شمار منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خاندان بنانا بھی جسمانی طور پر معذور خواتین کا بنیادی حق ہے۔
اس تحریر کا بنیادی مقصد باہمت اور معاشرے کے لیے مشعلِ راہ معذور شادی شدہ خواتین کے تجربات پیش کرنا ہے جنہوں نے مثالی معاشرتی زندگی گزارنے کے لیے ہر رکاوٹ کو بے حد حوصلے اور صبر و تحمل سے عبور کیا ہے۔
آسیہ اویس اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بطور ماہرِ نفسیات جاب کرتی ہے۔ اُن کے جیون ساتھی پوسٹل لائف انشورنس میں جاب کرتے ہیں۔
فاطمہ خصوصی افراد کی ایک NGO میں بطورِ جنرل سیکریٹری فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
کرن ظہور ایک پرائیوِٹ فرم میں بطور فرنٹ ڈیسک ایسوسی ایٹ جاب کرتی ہیں، جبکہ اُن کے جیون ساتھی کا اپنا بزنس ہے۔
فرح ملک ایک گلاس انڈسٹریز میں جاب کرتی ہیں اور اُن کے جیون ساتھی کا اپنا کاروبار ہے۔
عارفہ کاشف ایک پرائیوٹ اسکول میں بطور ٹیچر جاب کرتی ہیں اور اُن کے شوہر ایک ہوٹل میں جاب کرتے ہیں۔
آسیہ اویس اپنی شادی کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟
میں بچپن میں ہی اپنی بہت ساری مجبوریوں کو تسلیم کر چکی تھی، مگر اس کے باوجود میں نے اپنی زندگی میں کچھ ٹارگٹ مقرر کیے تھے۔ پھر میں زندگی میں اُس مقام پر آگئی جہاں ایک انسان اپنی فیملی کے بارے میں سوچتا ہے۔
چاہے یہ سوال خود آپ کے ذہن میں آئے یا آپ کے والدین آپ کے سامنے رکھیں، یہ سوچ آپ کے ذہن میں ضرور آتی ہے۔ میرے والدین نے بھی جب مجھ سے رائے پوچھی کہ کیا میں شادی کرنا چاہوں گی تو میں نے مثبت ردِعمل ظاہر کیا۔
مجھ سے چھوٹی دونوں بہنوں کی شادی ہوچکی تھی مگر میری معذوری کی وجہ سے میری شادی کے سلسلے میں وقت زیادہ صرف ہوا۔ جب اس مرحلے کو آگے بڑھایا گیا تو میرے لیے کچھ مختلف طرح کے رشتے بھی آئے جو میری عمر، تعلیم اور جاب سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، جنہیں میرے والدین نے مسترد کر دیا۔
مجھے بھی یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میری معذوری کی وجہ سے لوگ مجھے کمتر تصور کر رہے ہیں۔ بہرحال جب اویس کا رشتہ میری دوست کے توسط سے آیا تو سب نے اسے قبول کر لیا۔