دنیا

وزرا پر پابندی، ترکی کا امریکا کے خلاف جوابی کارروائی پر غور

امریکا نے ترک وزیر انصاف اورداخلہ پرپابندی عائد کی تھی اور ان کے امریکا میں موجود اثاثے منجمند کرنے کے احکامات دیے تھے۔

استنبول: امریکا کی جانب سے ترک وزیر داخلہ اور وزیر انصاف پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ترکی نے بھی جوابی کارروائی کرنے پر غور شروع کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی اس وقت پیدا ہوئی تھی جب ترکی نے دہشت گردی کے الزام میں اکتوبر 2016 میں امریکی پادری اینڈریو برنسن کو گرفتار کیا تھا اور گزشتہ ہفتے گھر میں منتقل کر کے نظر بند کردیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود تعلقات میں بہتری نہیں آسکی۔

خیال رہے کہ حال ہی میں امریکا کی جانب سے ترک وزیر انصاف عبدالحمیت گل اور وزیر داخلہ سلیمان سوئیلو پر پابندی عائد کی گئی تھی اور امریکا میں کوئی اثاثے یا جائیداد ہونے کی صورت میں اسے منجمد کرنے کے احکامات دیے تھے جبکہ امریکی شہریوں کو ان کے ساتھ کاروبار کرنے سے بھی منع کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ترکی نے ایک دوسرے کیلئے ویزا سروس معطل کردی

اس ضمن میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ دونوں وزراء نے برنسن کو گرفتار اور بعد ازاں قید کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، جو ترکی کے صوبے ازمیر کے شہر ایگین میں ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے سربراہ تھے۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت نے مذکورہ پابندی 2016 میں پیش کردہ گلوبل میگنِسکی ایکٹ کے تحت لگائی، جو ماسکو جیل میں ہلاک ہونے والے وکیل سرگی میگنسکی کے نام سے بنایا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت امریکا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں غیر ملکی عہدیداروں پر پابندی لگانے کا اختیار حاصل ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور ترکی شام کے معاملے پر باہمی اختلاف ختم کرنے پر متفق

دوسری جانب ترک وزارت خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہونےکا اندیشہ ہے۔

ادھر ترک وزیر خارجہ میولیٹ کاؤسولو آئندہ کچھ روز میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے ملاقات کرنے والے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس اقدام پر رد عمل ضرور دیں گے۔

خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں ترکی اور امریکا کے تعلقات میں آنے والا حالیہ تناؤ اب تک کا سب سے سنگین بحران تصور کیا جارہا ہے، جسے مشہور ترک روزنامے ’جمہوریت‘ نے اپنی شہہ سرخی میں ’ایک تاریخی بگاڑ‘ سے تعبیر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ترک فوج کی کردوں کے خلاف کارروائی: امریکا کو باز رہنے کا انتباہ

اس حوالے سے واشنگٹن انسٹیٹیوٹ میں ترکش ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ حالیہ بحران ترک صدر طیب اردوان کی قیادت میں ترک معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے جس کے تحت ترکی کا مسلم مشرق وسطیٰ کی جانب جھکاؤ بڑھا ہے۔

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی کو کوئی بھی اقدام اٹھانے سے قبل ایک مرتبہ پھر سوچنا چاہیے کیوں کہ معاشی عدم استحکام ترکی کے لیے نقصان دہ ہوگا، اس کے ساتھ انہوں نے ترک صدر کو اس بحران سے خوش اسلوبی سے نمٹنے کی تجویز بھی دی۔


یہ خبر 3 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی