سندھ میں پیپلز پارٹی ہر مرتبہ کامیاب کیوں ہوجاتی ہے؟
یہ 2012ء کی بات ہے جب پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے حیدرآباد میں قومی شاہراہ کے قریب ایک بہت بڑے جلسے کا انعقاد کیا تھا۔ اس جلسے کی کامیابی کے بعد سندھی زبان کے ایک اخبار نے شہ سرخی لگائی
’سندھ نے اپنے سیاسی متبادل کا انتخاب کرلیا‘
مگر جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو فنکشنل لیگ ایسے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
یہ جلسہ درحقیقت اُس زمانے میں ہوا تھا جب سندھ میں دوہرا بلدیاتی نظام متعارف کروانے کی کوشش کی جارہی تھی جس کے خلاف اندرونِ سندھ میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔ اس بل کو روکنے کے لیے سندھ کی تمام تر قوم پرست اور پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں یکجا ہوگئی تھیں اور دباؤ اس قدر بڑھ گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بلدیاتی نظام کا بل واپس لینے پر مجبور ہوگئیں۔
اگرچہ بل تو پاس نہیں ہوسکا، مگر قومی سطح پر پی پی پی کی مقبولیت کم ہونے کے باوجود اس جماعت نے سندھ میں اتنی اکثریت ضرور لے لی کہ اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور یوں اس سندھی اخبار کے ایڈیٹر کی یہ خبر سچ ثابت نہ ہوئی جس میں انہوں نے فنکشنل لیگ کو سندھ میں متبادل کے طور پر پیش کیا تھا۔
پڑھیے: بھٹو کی روح اور پیپلز پارٹی
مگر سیاست ایک ایسا کھیل ہے جو کبھی رُک کر آرام کی سانس نہیں لیتا بلکہ ہمیشہ تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ لہٰذا اس بار 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں ہمیں سندھ میں فنکشنل لیگ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نامی اتحاد کی صورت میں نظر آئی، جس میں کئی قوم پرست سیاستدان، ماضی میں حکمران رہ چکے رہنما اور پارلیمانی سیاست کرنے والے بڑے بڑے نام موجود تھے۔
سندھ تک محدود رہ جانے والی پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں عوام میں 10 سال سندھ پر حکمرانی کرنے والی پی پی پی کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے، اس لیے اس بار سندھ کے لوگ اسے اپنے ووٹ کے ذریعے مسترد کردیں گے اور اپنے لیے کسی نئے متبادل کو چنیں گے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، کیوں کہ پی پی پی نے 2013ء میں جیتی گئیں 67 سیٹوں کے مقابلے میں اس بار سندھ اسمبلی میں 74 نشستیں حاصل کرلی ہیں۔
اب ایسا کیا ہوا کہ پیپلز پارٹی سے بیزار سندھ کی عوام نے اسے دوبارہ اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا ہے؟
ان نتائج کے بعد سندھ میں ایک سیاسی اور دانشور طبقہ ایسا بھی ہے جو پی پی پی اور عوام پر گالیوں کی بوچھاڑ کر رہا ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے سندھ کے عوام نے پی پی پی کو ووٹ دے کر کوئی ناقابلِ معافی جرم کیا ہے۔ اس طرح کی تنقید کرنے والوں میں ان لکھاریوں کو بھی رگڑا جارہا ہے جنہوں نے جی ڈی اے کی حمایت نہیں کی جبکہ وہ طبقہ جی ڈی اے کی حمایت نہ کرنے کو پی پی پی کی حمایت ہی سمجھتا ہے۔
فیس بک پر پی پی پی مخالف گروپس اور پیجز سے کچھ نامور سماجی شخصیات کی تصاویر پھیلائی جا رہی ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے پی پی پی کی حمایت کی جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ میں کامیاب ہوگئی۔ یعنی مختلف شبعہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے چند لوگ سندھ میں جسے بھی چاہیں کامیاب کروا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں اس بار اگر پی پی پی کا کوئی سخت مدِمقابل تھا تو وہ جی ڈی اے کی صورت ایک گروہ تھا جس نے اپنے امیدوار ہر حلقے میں کھڑے کیے تھے۔ تھرپارکر، میرپور خاص، عمرکوٹ اور حیدرآباد کے حلقوں پر تو کانٹے کا مقابلہ ہونے کی امید تھی مگر پھر بھی پی پی پی ہی بازی لے گئی۔ لیکن یہ سب اچانک یا غیر معمولی یا غیر یقینی نہیں ہے بلکہ اس کی چند وجوہات ہیں۔ ایک تو جی ڈی اے کوئی ایسی سیاسی قوت نہیں تھی جو پچھلے پانچ برسوں میں عوام سے رابطے میں رہی ہو۔
مزید پڑھیے: قصور بے چاری پیپلز پارٹی کا نہیں عوام کا ہی ہے!
اس کے علاوہ جی ڈی اے کی حیثیت ایک سیاسی جماعت کی نہیں تھی۔ یوں تو ایاز لطیف پلیجو جیسے نوجوان بھی جی ڈی اے کا حصہ رہے مگر وہ بھی اس بار شکست سے دوچار ہوئے اور پیپلز پارٹی کے جام خان شورو کی جانب سے لیے گئے 35275 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 13631 ووٹ ہی حاصل کرسکے۔
لیکن ان کے چاہنے والے پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔ مگر یہ پیار انہیں سندھ اسمبلی تک نہیں پہنچا سکا۔ وہ سیاستدان جو اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ تھے وہ جی ڈی اے کے اتحاد میں آکر اپنی شناخت تک کھو بیٹھے، یا جن کی حیثیت کسی سیاسی جماعت میں مستحکم تھی، وہ جی ڈی اے میں آکر بہت چھوٹے ہوگئے۔ اس کی مثال ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ایاز لطیف پلیجو ہیں۔
ایاز لطیف پلیجو تو اپنی سیاسی جماعت کو پسِ پشت ڈال کر جی ڈی اے میں شامل ہوئے، جبکہ اس سے بھی اہم بات یہ کہ ان کا رابطہ گزشتہ 5 سالوں میں اس حلقے کی عوام سے رہا ہی نہیں تھا جہاں سے انہوں نے خود کو آزمانے کی کوشش کی۔ پی پی پی انتظامی طور بہت بُری کارکردگی رکھتی ہے مگر جی ڈی اے کو لوگوں نے اس لیے بھی مسترد کیا کیوں کہ جی ڈی اے پی پی پی سے ایک بہتر سیاسی اتحاد نہیں تھا۔ جی ڈی اے رہنما تو اپنی پریس کانفرنسوں میں یہ تک جتاتے رہے کہ آپ سے اس وقت سندھ کی اگلی حکومت مخاطب ہے، مگر جب جی ڈی اے نے پی پی پی مخالفت میں بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین میاں مٹھو اور تحریک لبیک کے ساتھ ہاتھ ملانے کا سوچا تو یہ اس کی ایک سنگین سیاسی غلطی تھی جسے ایک عام ووٹر شاید ووٹ دیتے وقت نہ بھولا ہوگا۔
سندھ میں قوم پرست سیاست کی کمزوری بھی پی پی پی کی کامیابی کی ایک وجہ بنی۔ سندھ کی قوم پرست سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کو ایک پارٹ ٹائم یا تفریحی کام کے طور پر لیتی رہی ہیں۔ نہ تو وہ اس حوالے سے کوئی ہوم ورک کرتی ہیں اور نہ ہی انہیں انتخابی سیاست کا اتنا تجربہ ہے۔ اس لیے وہ ووٹر جو قوم پرستوں کو پسند بھی کرتا ہے، جب دیکھتا ہے کہ وہ اپنی عدم دلچسپی کی وجہ سے اتنے ووٹ نہیں سمیٹ سکتے، تو وہ بھی پی پی پی کو ہی اپنے لیے بہتر آپشن کے طور پر دیکھتا ہے، کیوں کہ سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی پی) کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے صرف 1516 ووٹ حاصل کیے اور انہوں نے اس شکست کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی جیت میں ایک اہم کردار ایم کیو ایم کا سیاسی طور پر کمزور ہونا بھی تھا۔ گوکہ کراچی میں پی پی پی اتنی نشستیں نہیں جیت پائی ہے مگر وہ ووٹ بینک بھی پی پی پی کے حصے میں اس لیے آیا کہ نئی حلقہ بندیوں سے اسے فائدہ ہوا۔ مگر کراچی کی عوام نے پی پی پی اور ایم کیو ایم کی بجائے تحریک انصاف کو بہتر سمجھا۔
جانیے: پیپلز پارٹی پنجاب، ایک ڈوبتا سورج
پیپلز پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے انتخابی سیاست میں حصہ لیتی آئی ہے اور اسے اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ ووٹنگ کے دن دور دراز علاقوں کے ووٹرز کو کیسے پولنگ تک لانا ہے، کس طرح ایجنٹس سے کام کروانا ہے اور یہ کہ جوڑ توڑ کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ تمام عوامل بھی ایک سیاسی پارٹی کی مقبولیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس بار ہم نے یہ بھی دیکھا کہ الیکشن مہم میں آصف علی زرداری نے خود کو پسِ پردہ رکھا اور بلاول کے ہاتھ میں مائیک تھما دیا کیوں کہ زرداری صاحب کی حیثیت چاہے شریک چیئرمین کی ہو مگر انہیں اندازہ تھا کہ جلسوں میں ان کی موجودگی ان انتخابات پر اچھے اثرات مرتب نہیں کرے گے۔ جس طرح ایک ووٹر پارٹی دیکھ کر ووٹ کرتا ہے، اسی طرح وہی ووٹر امیدوار کو دیکھ کر بھی ووٹ کرتا ہے۔
پی پی پی نے اپنے لیے ان 'الیکٹیبلز' کا انتخاب کیا جن کے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ تھے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی یہ حکمت عملی بھی کامیاب رہی۔ گوکہ ان کے سامنے آزاد امیدوار کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہی تھا مگر زیادہ تر کامیاب وہی ہوئے جنہیں پارٹی نے ٹکٹ دیا۔
سندھ کی عوام نے تمام تر خامیوں کے باوجود بھی اقتدار میں لانے کے لیے اپنا ووٹ پی پی پی کو دیا ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ پی پی پی کی مضبوط انتخابی حکمت عملی اور مخالفین کی کمزوریاں بھی ہیں، جن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
لہٰذا پیپلز پارٹی کی اس کامیابی پر سندھ کی عوام پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ اس نے غلط فیصلہ کیا ہے بلکہ ان نتائج کے سامنے آنے کے بعد اُن تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے جو اب تک پیپلز پارٹی کا تسلط اتنی خراب حکمرانی کے باوجود بھی ختم کروانے میں ناکام رہی ہیں۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔