‘تحریک انصاف کو وعدوں کی تکمیل کیلئے آئی ایم ایف کا سہارا لینا ہوگا‘
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1 کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے، 50 لاکھ گھر بنانے اور یوٹیلیی پر سبسڈی دینے کے وعدوں کی تکمیل صرف عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکیج سے ہی ممکن ہے۔
سسٹنڈ ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام بعنوان بعنوان پوسٹ الیکشن پولیٹکل ڈیولمپنٹ سیمینار منعقد ہوا جس میں شریک مقررین نے واضح کیا کہ عسکری سول تعلقات اور خارجہ پالیسی بھی ںئی حکومت کے لیے بڑے چینلجز ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی سفیر کی عمران خان سے ملاقات، انتخابات جیتنے پر مبارکباد
سینئر صحافی زاہد حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اقلیتی حکومت بنانے جارہی ہے جبکہ حکومت چلانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھانے پڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کو اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے ہوں گے ورنہ ان کی حکومت 2 برس سے زائد اقتدار کے نشستوں پر نہیں رہ سکے گی‘۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’عسکری و سول تعلقات میں توازن بڑھے گا لیکن سول اداروں کی بالادستی موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہوگی۔
سیاستدانوں کو سول اداروں کی مضبوطی کے لیے کام کرنا چاہیے خصوصاً پارلیمنٹ کے لیے، جس کو نواز شریف نے کبھی اہمیت نہیں دی۔
مزید پڑھیں: دھاندلی کی شکایات پر تمام حلقے کھلوانے کیلئے تیار ہوں، عمران خان
سول قانون سے متعلق سیکیورٹی اداروں کو مضبوط بنانے اور قومی احتساب بیورو کی ازسرنو تشکیل سازی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی بھارت سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے تو مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے لیے بڑا چینلج انتہاپسندی ہے اور مجھے خوف ہے کہ پی ٹی آئی لسانی سیاست کی روک تھام کے لیے موثر فیصلے نہیں کر سکے گی۔
انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے زاہد حسین نے کہا کہ ماضی کے تمام الیکشن مختلف تنازعات کا شکاررہے اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما آصف علی زرداری نے 2013 کے ’انتخابات کو ریٹرنگ افسر‘ کا الیکشن قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا ’اس مرتبہ تمام سروے بتارہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں کامیابی ملی ہے، میرا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ میں تفریق کی وجہ سے پی ٹی آئی نے کراچی میں بہتر کارکردگی کا مظاہر کیا اور یہ ہی وہ بنیادی فرق ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی میڈیا عمران خان کی جیت کو کس طرح دیکھ رہا ہے؟
سابق سفیر شفقت کاکاخیل نے کہا کہ افغانستان سے اچھے تعلقات بہت کلیدی ہوں گے جس سے پورے ملک میں امن کی ہوا تیز ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ امر قابل تعریف ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی ایک قدم اٹھایا اور عمران خان کو دعوت دی، یقیناً یہ مثبت جواب ہے‘۔
امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کردیئے ہیں اور پاکستان اور امریکا کے مابین بھی فاصلے بھی کم ہو رہے ہیں۔
شفقت کاکاخیل کا کہنا تھا کہ سول اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا کیوں کہ اداروں کی کمزوری سے سول اور ملٹری توازن کا پلڑا عدم توازن کا شکار ہوتا ہے۔
ایس ڈی پی آئ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم نے کہا کہ انتخابات سے متعلق تمام تر تحفظات اور خدشات کے باوجود یہ مثبت پہلو ہے کہ ملک میں جمہوریت ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو بھی انتخابی مہم کے دوران عوامی مزاحمت کا سامنا
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ عمران خان کی تقریر بہت متاثر کن تھی لیکن آئی ایم ایف حکومت سے سوال کرے گا کہ ملک میں ریونیو کیسے بڑھایا جا سکے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف ہم سے ٹیکس میں اضافے کی بات کرے گا، یہ پہلو پریشان کن ہے کہ گردشی قرضے دفاعی بجٹ سے بہت زیادہ ہے‘۔
ماضی کی حکومت نے قومی ایئرلائن اور اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوشش کی تو عمران خان نے مخالف کی۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ ’اب پی ٹی آئی اداروں کو نج کاری کرنے کی کوشش کرے گی لیکن اپوزیشن مخالفت کرے گی۔
یہ خبر 31 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی