ٹنڈو محمد خان کا 10 سال سے زیرِ تعمیر اسکول
ٹنڈو محمد خان کے ایک زیرِ تعمیر اسکول میں آنے والوں کا استقبال ایک پراسرار خاموشی کرتی ہے۔ بیرونی دیوار میں مرکزی دروازہ نہیں ہے، چنانچہ کوئی بھی اس احاطے میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ یہ گورنمنٹ پبلک ہائی اسکول ٹنڈو محمد خان ہے جو کہ اب اپنی تعمیر کے کم از کم دسویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔
یہ پورا اسکول جو کہ دو تدریسی عمارتوں، ایک آڈیٹوریم، ایک کینٹین، اور ایک بوائز ہاسٹل پر مشتمل ہے، کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ تدریسی عمارتیں عظیم الجثہ ہیں اور ایک وقت میں سینکڑوں طلبا یہاں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
مگر سرکاری غفلت اس منصوبے کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اسکول ایسی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں سیم کا پانی زمین کے اوپر موجود ہے جس سے اسکول کا ڈھانچہ اپنی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی پانی رسنے کی وجہ سے برباد ہو رہا ہے۔
ایک مقامی اسکول ٹیچر اور سماجی کارکن حکومت کو غلط منصوبہ بندی کا الزام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "منصوبے کے لیے منتخب کردہ زمین سیم کی وجہ سے تعمیرات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پلاسٹر اور پینٹ دیواروں سے اکھڑ رہا ہے۔"
یہ منصوبہ اس وقت شروع کیا گیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ کے ارباب غلام رحیم سندھ کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ اس وقت سے اب تک دو صوبائی حکومتیں اپنا دور مکمل کرچکی ہیں مگر اسکول اب بھی تباہ حال ہے اور اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ یہ مستقبل قریب میں مکمل ہوگا۔
جس عمارت کو ہاسٹل کا کام دینا تھا، وہاں پر آوارہ کتوں نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے جبکہ جھاڑیاں اور لمبی گھاس عمارت میں داخلہ مشکل بنا دیتی ہیں۔ ہاسٹل میں زیرِ تعمیر کمروں اور ٹوائلٹس کے لکڑی کے دروازے بھی غائب نظر آتے ہیں جبکہ دیواروں پر فحش نقوش، وال چاکنگ اور سیاسی نعرے لکھے نظر آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کس طرح کے لوگ آتے ہیں۔