خان صاحب، بس 10 ارب درخت لگانے کا وعدہ مت بھولیے گا
افواہوں، خدشات، مسائل اور قربانیوں کے بعد بالآخر پاکستان میں انتخابات کا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوگیا، اگرچہ بعض مقامات پر انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں اور ووٹوں کی گنتی کے مراحل میں غیر شفافیت کی شکایات موصول ہوئی ہیں اور الیکشن کمیشن ان شکایات کا جائزہ لے بھی رہا ہے لہٰذا امید ہے کہ ان شکایات کا ازالہ جلد ہی کرلیا جائے گا۔
اگر خدانخواستہ ایسا نہ بھی ہو اور سیاسی تناؤ بڑھ بھی جائے تب بھی یہ حقیقت قائم رہے گی کہ انتخابات 2018ء کے نتیجے میں جیت کے لحاظ سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اول نمبر پر آئی ہے اور توقع ہے کہ آئندہ تشکیل پائی جانے والی حکومت میں عمران خان ہی پاکستان کے متوقع وزیر اعظم ہوں گے۔ انہیں اس مبارک موقع پر پیغام تہنیت کے ساتھ ساتھ ایک یاددہانی کروانا اس تحریر کا مقصد ہے کہ 9 جولائی کو پیش ہونے والے آپ کے پارٹی منشور میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے پر آپ کی پارٹی ملک بھر میں 10 ارب درخت لگائے گی۔
عمران خان کی انتخابی جیت کے بعد جو پہلی پریس کانفرنس منعقد ہوئی اُس کا حرف حرف اہم اور مثبت تھا اور طویل عرصے بعد عمران خان کی یہ پہلی پریس کانفرنس تھی جسے مختصر مگر جامع کہا جاسکتا ہے۔ لیکن مجھے ذاتی حیثیت میں اس پریس کانفرنس میں بس ایک چیز کی کمی لگی۔ اگر خان صاحب ذرا صراحت سے یہ اعلان کردیتے کہ آپ کی حکومت دیگر بہت سے اہم امور سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ 10 ارب درخت لگانے کے وعدے کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرے گی تو شاید مجھ جیسے کئی ماحولیاتی مسائل پر فکرمند رہنے والے پاکستانی آپ سے زیادہ مطمئن ہوجاتے۔
میری رائے میں پاکستان کو دیگر بے شمار مسائل کے علاوہ جن 2 بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں پانی اور ماحولیاتی آلودگی سرِ فہرست ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان 7 ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور ان کے تباہ کن اثرات سے ہر سال ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چنانچہ آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کو اس طرف فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔
پڑھیے: شجرکاری کے موسم میں درخت لگانے کا درست طریقہ سیکھیں
اگرچہ پاکستان کے پڑوس میں موجود آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 2 سب سے بڑے ممالک چین اور بھارت سے تعلقات ازحد مختلف ہیں کہ ایک کو ہم اپنا سب سے زیادہ بااعتماد دوست اور دوسرے کو بدگمان دشمن سمجھتے ہیں لیکن ان دونوں ہی ممالک میں بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیوں کے نتیجے میں آلودگی کے بدترین اثرات سے پاکستان بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ کچھ سالوں میں موسم گرما کی شدت کے سبب ہلاکتوں میں پریشان کن اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں موسم سرما میں بڑھتی ہوئی اسموگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریاں بھی کسی واقفِ حال سے پوشیدہ نہیں۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر شائع ہوئے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں درختوں کی کٹائی اور قدرتی آفات کے باعث جنگلات میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ پہلے ہی پاکستان میں جنگلات صرف 2 سے 5 فیصد حصے پر مشتمل ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے تجویز کردہ شرح 12 فیصد سے بہت کم ہے۔ پاکستان کا شمار ان پہلے 6 ممالک میں بھی ہوتا ہے جو گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
شہروں کی آبادی میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے ویسے ہی وہاں موجود گھروں کی تعمیر، بڑھتے کاروبار اور ٹریفک کے ہجوم کے لیے کشادہ سڑکوں کی تعمیر کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔ ان ترقیاتی و تعمیراتی کاموں سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہ ان شہروں میں موجود درختوں کی تعداد۔
ماہرین کے مطابق درختوں کی کٹائی سے نہ صرف بارشوں میں کمی آ رہی ہے بلکہ آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کسی بھی ملک کے کُل رقبے کا یا کسی بھی شہر کے کل رقبے کا کم از کم ایک تہائی حصہ یا کم از کم 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات کُل اراضی کے محض 5 فیصد رقبے پر ہی موجود ہیں اس میں نہ صرف قدرتی بلکہ زرعی اراضی پر موجود جنگلات کی مجموعی تعداد بھی شامل ہے۔
عالمی ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے اعداد و شمار، حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے متضاد ہے بلکہ ان بین الاقوامی اداروں کے بقول پاکستان میں صرف 2.1 فیصد اراضی پر جنگلات موجود ہیں اور پاکستان میں ہر سال جنگلات کی شرح پیداوار منفی 2 ہے۔
پڑھیے: اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
دوسری طرف پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈیولپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے سالانہ 27 ہزار ہیکٹر سے زائد اراضی بنجر ہو رہی ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ 30 سے 40 سال تک پاکستان مکمل طور پر بنجر ہوجائے گا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پچھلے 15 برسوں میں کراچی میں ترقی کے نام پر تقریباً 25 ہزار اور لگ بھگ اتنی تعداد میں لاہور میں درخت کاٹے گئے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شہروں میں گرمی کا زور کم کرنے کے لیے ایک سادہ طریقہ زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنا ہے۔ یہ درخت ہی ہیں جو سایہ بھی دیتے ہیں اور اپنے پتوں سے آبی بخارات خارج بھی کرتے ہیں جس سے درجہ حرارت کم کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
جرمن شہر میونخ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق چھوٹے چھوٹے متعدد پارکس ایک بڑے پارک کی نسبت شہر کو زیادہ ٹھنڈا رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دراصل ایک بڑے پارک کا دائرہ اثر ایک محدود مقام ہوتا ہے البتہ چھوٹے پارکس اپنے ارد گرد کے کئی مقامات کو معتدل درجہ حرارت پر لانے میں معاون ہوتے ہیں۔
عالمی حدت میں اضافے اور پاکستان پر اس کے منفی اثرات کی حقیقت اپنی جگہ لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں جب صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی ذمہ داری اٹھائی اور پھر جس طرح وہاں درختوں کی کاشت سے متعلق ’بلین ٹری‘ مہم کامیابی سے مکمل کی، صوبائی حکومت کا یہ قدم واقعی لائق صد تحسین ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی ویب سائٹ پر بلین ٹری منصوبے پر مضمون کے مطابق خیبر پختونخوا میں سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور درختوں کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات بری طرح متاثر ہورہے تھے، ایسی صورت حال میں صوبے میں برسرِ اقتدار عمران خان کی سیاسی جماعت نے 2014ء میں ’بلین ٹری‘ منصوبے کا آغاز کیا۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم عالمی ادارے آئی سی یو ان کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے کے بعد خیبر پختونخوا کا شمار دنیا کے ان علاقوں میں کیا جانے لگا ہے جہاں عالمی معاہدے 'بون چیلنج' کے تحت ساڑھے 3 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پودے لگانے کا ہدف پورا کیا گیا ہے۔
ماحولیات پر تحقیق کرنے والی عالمی ادارے آئی یو سی این نے اعتراف کیا کہ خیبر پختونخوا پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں گزشتہ چند برسوں کے دوران وسیع پیمانے پر شجرکاری کی گئی ہے۔ اس منصوبے کی کُل لاگت 169 ملین ڈالر بنتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم ہی کے مطابق یہ منصوبہ نہ صرف ماحول کے لیے اچھا ہے بلکہ اس کی وجہ سے درختوں کی نجی نرسریوں کا ایک نیٹ ورک بھی قائم ہوا ہے اور اس کے علاوہ مقامی افراد کی آمدن بڑھی ہے اور بے روزگار نوجوانوں اور خواتین کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوئے ہیں۔
پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق خیبر پختونخوا کی حکومت نے عالمی ماحولیاتی کانفرنس یا بون چیلنج کے لیے تقریباً 4 لاکھ 50 ہزار ہیکٹر زمین درختوں کی کاشت کے لیے مختص کی ہے۔ حکومت 2020ء تک 150 ملین ہیکٹر رقبے کو دوبارہ درختوں کی کاشت کے لیے مناسب بنائے گی اور 2030ء تک 350 ملین ہیکٹر کو درختوں کی کاشت کے قابل بنایا جائے گا۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ماحولیاتی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ایک کامیاب منصوبہ تھا۔
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس بلین ٹری منصوبے کو کامیابی سے مکمل کرنے والی تحریکِ انصاف اب پورے ملک میں حکومت سنبھالنے جا رہی ہے لہٰذا ان سب حقائق، اعداد و شمار اور گزارشات کے بعد پاکستان کے متوقع وزیرِ اعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ ملک بھر میں درختوں کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر بالعموم اور کراچی شہر کی آبادی و آلودگی کے سبب بالخصوص جلد از جلد 10 بلین ٹری سونامی منصوبوں کو شروع کیجیے۔
دل کھول کر محبت دیتے ہوئے آپ کی قیادت پر اعتماد کرنے والے اس شہرِ قائد کراچی کو کم از کم 10 لاکھ درختوں کی فوری ضرورت ہے۔
لکھاری کو سیاسیات، ثقافت اور تاریخ پڑھنے کا شوق ہے اور وہ مذاہبِ عالم کی بھول بھلیوں میں آوارہ گردی کر کے ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگانا چاہتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ShozabAskari@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔