نقطہ نظر

’مشن امپوسبل‘: ٹام کروز کے امپوسبل جنون کا زبردست مظاہرہ

اس فلم میں پیرس اور لندن کی سڑکوں اور عمارتوں کے علاوہ جس چیز نےاسکرین پر بہت زیادہ طلسم جگایا ہے وہ ٹام کروز کا جنون ہے

ہالی وڈ میں کسی ایک کہانی کو بے پناہ کامیابی مل جائے تو پھر فلم سازوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس ایک موضوع پر مزید فلمیں بنا دی جائیں۔ ہالی وڈ میں جنگی مناظر سے لے کر رومانوی احساسات تک، کسی بھی موضوع پر فلموں کی سیریز بن جانا ایک عام سی بات ہے۔ اسی عام سی بات کے تناظر میں بننے والی ایک خاص فلم ’مشن امپوسبل۔ فال آؤٹ‘ کا یہاں تذکرہ ہے، جس نے سینما کی اسکرین پر فلم بینوں کو پھر سے دل تھامنے پر مجبور کردیا ہے۔

اس فلم میں پیرس اور لندن کی سڑکوں اور عمارتوں کے علاوہ جس چیز نے اسکرین پر بہت زیادہ طلسم جگایا ہے، وہ ٹام کروز کا جنون ہے، جس کے تحت وہ ہر منظر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے تمام تر خطرناک اسٹنٹ خود کرنا ضروری سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے فلم کی شوٹنگ کے دوران وہ اپنا ٹخنہ بھی تڑوا بیٹھے، جس کی وجہ سے کئی ہفتوں تک فلم کی عکس بندی روکنی پڑگئی۔

شاید اسی جنون کی وجہ سے یہ فلم کسی بھی طرح سے جیمز بونڈ اور ان جیسی دیگر ایکشن فلموں کی سیریز سے کم نہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ایکشن فلم سیریز میں ’مشن امپوسبل‘ اس وقت سب سے بلند درجے پر فائز ہے۔

کہانی

ہالی وڈ میں کہانیوں کی کمی نہیں، بس دار و مدار اس بات پر ہے کہ کہانی اور موضوعات کو بیان کس طرح کیا جاتا ہے اور کون سی فلم کا اسکرین پلے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس فلم کا مرکزی خیال امریکی ٹیلی وژن سیریز سے لیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہانی کو ٹیلی وژن کے مقابلے میں فلم کے پردے پر زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس فلم سیریز میں ہیرو ’ایتھن ہنٹ‘ اپنے دیگر ممبران کے ساتھ مل کر بدی کی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، جس طرح اس فلم کی ٹیگ لائن بھی بتاتی ہے کہ ’کچھ مشن آپ کا انتخاب نہیں ہوتے بلکہ قدرت اس صورتحال میں آپ کو لا پھینکتی ہے'۔

اس فلم کی کہانی میں بھی یہی ہے، جس کو کرداروں اور مکالمات کے ساتھ کافی اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک پہلو البتہ بہت عجیب ہے، اور وہ یہ کہ ہالی وڈ کے فلم سازوں میں اب اکثریت ایسی فلمیں بنانے لگی ہے، جس میں مرکزی خیال دنیا کو محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ ان کہانیوں میں جب بھی دنیا پر کوئی بُرا وقت آنے والا ہوتا ہے تو چند شہر ضرور خطرے میں ہوتے ہیں، جس طرح اس فلم میں ممکنہ ایٹمی حملے کی زد میں آنے والے شہروں میں روم، یروشلم اور مکّہ شامل تھے۔ ان تینوں شہروں سے دنیا کے 3 بڑے مذاہب جڑے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی فلموں میں ان شہروں کا تذکرہ دکھایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر انجلینا جولی کی فلم ’سالٹ‘ دیکھی جاسکتی ہے، کیونکہ اس میں بھی ان شہروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان فلموں میں بڑھتا ہوا یہ رجحان کافی عجیب ہے۔

فلم کے کلائمکس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور بھارتی تناطر میں کوہِ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں حتمی لڑائی کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں، حالانکہ کلائمکس کی حقیقی عکس بندی نیوزی لینڈ کے پہاڑی سلسلے میں ہوئی ہے۔ پھر جس طرح فلم میں 3 نیوکلئیر بموں کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا کہ ان کے پھٹنے سے بھارت، پاکستان اور چین کو حاصل پانی کے ذخائر خراب ہوسکتے ہیں اور فلم کی کہانی کا اختتام بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کیا گیا، یہ سب بہت زیادہ غیر معمولی لگا۔

—اسکرین شاٹ

ریمبو فلم سیریز تو ہم سب کو ہی یاد ہوگی جس میں دکھائے جانے والا مثبت افغانستان بعد میں کس طرح ان کے لیے دشمنوں کی آماجگاہ بن گیا۔ پھر اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ مقبوضہ جگہ ہے لیکن اس حوالے سے فلم میں کہیں بھی اخلاقی اور قانونی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے کوئی ایسی علامت یا ہدایت نہیں دکھائی گئی کہ یہ ایک متنازعہ اور مقبوضہ علاقہ ہے۔

ہالی وڈ کے کہانی نویسوں کے ہاں سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ان کی فلموں کے ہیرو اور ولن سیاسی ہوجاتے ہیں۔ کبھی ان کی فلموں کو شمالی کوریا، تو کبھی افغانستان، عراق، شام اور ویت نام کا بخار ہوجاتا ہے۔ اب ان کی فلموں میں چین اور پاکستان کا تذکرہ بھی آنے لگا ہے۔ اس سے پہلے والے سیکوئل ’گھوسٹ پروٹوکول‘ میں بھی فلم کے کلائمکس کا مقام بھارت دکھایا گیا تھا۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ ہالی وڈ کے کہانی نویسوں کا یہ تخلیقی جمود اگر اسی طرح جاری رہا تو ان کی پروپیگنڈا فلمی سوچ، کامیاب فلمی سیریز کو ناکامی کی طرف لے جائے گی۔ لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی ہالی وڈ کی فلمیں، پیشن گوئیوں کا کام بھی دیتی ہیں کہ امریکی تھنک ٹینک دنیا کے بارے میں کس طرح سوچ رہا ہے۔

فلم سازی

یہ فلم 178 ملین ڈالرز کی خطیر رقم سے بنائی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ’کرسٹوفر میکوئر‘ کے علاوہ ٹام کروز بھی ان 7 فلم سازوں میں شامل ہیں، جن کے مالی اشتراک سے یہ فلم مکمل ہوئی ہے۔ فرانس، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ناروے میں بنائی جانے والی فلم میں دل کھول کر وسائل کا استعمال کیا گیا ہے اور فلم کو دیکھتے ہوئے اس کا بخوبی اندازہ ہورہا ہوتا ہے۔

فلم کے لینڈ اسکیپ، مختلف مقامات، تکنیکی معاملات، موسیقی، ایڈیٹنگ سمیت ہر چیز پیشہ ورانہ طور پر اپنا مثبت تاثر دے رہی ہے، جس کا مجموعی اثر فلم پر مرتب ہوا اور یوں ایک اچھی فلم سازی دیکھنے کو ملی۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی 4 بڑی کمپنیاں بیڈروبوٹ، پیرا ماؤنٹ پکچرز، اسکائے ڈانس میڈیا اور ٹی سی پروڈکشن کی خدمات بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں فلم کو تقسیم کرنے والی درجنوں کمپنیاں ان کے علاوہ ہیں، جو اس فلم کا حصہ بنی ہیں۔ ٹام کروز نے اس سیریز کی پہلی فلم سے بطور فلم ساز اپنے سفر کی ابتداء کی تھی، اور یہ سلسلہ آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔

ہدایت کاری

اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر میکوئر ایک منجھے ہوئے تخلیق کار ہیں، جنہوں نے بڑے بینرز کی متعدد فلمیں کامیابی سے مکمل کیں جن کو پسند بھی کیا گیا۔ مشن امپوسبل سیریز میں ان کی یہ دوسری فلم ہے، اس سے پہلے اسی فلم سیریز کا سیکوئل ’رؤگ نیشن‘ بھی بنا چکے ہیں۔ ان کی ٹام کروز کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی ہے، جس کی وجہ سے مشن امپوسبل کے علاوہ ’دی ممی‘ کے سیکوئل میں بھی دونوں ساتھ کام کرچکے ہیں۔

کرسٹوفر میکوئر فلم تخلیق کرنے کے معاملے میں کامیاب انسان سمجھے جاتے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے اس فلم میں بھی کیا۔ لندن کی سڑکیں ہوں، پیرس کی شاہرائیں یا پھر نیوزی لینڈ کے پہاڑی سلسلے ہوں، تمام مقامات پر کمال کی شوٹنگ کی ہے۔ خوف کے مارے سب دیکھ کر دل بیٹھنے لگتا ہے اور یہی اس فلم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے طویل دورانیے کی فلم میں ایک لمحے کے لیے بھی فلم بین اسکرین سے نظریں نہیں ہٹا سکتے۔

اداکاری

ٹام کروز کی اداکاری ہمیشہ کی طرح اس فلم میں بھی لاجواب ہے، لیکن فلم کے ولن ’سین ہیرث‘ نے غیر معمولی طور پر بہت ہی زیادہ متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اداکاروں میں ہنری سول، رنگ رامس، سائمون پگ، ربیکا فروگ سین، انجیلا بیسٹ، وینیسا کربے بھی عمدہ اداکاری کرنے والوں میں شامل ہیں۔ چینی اداکار ’لیانگ یانگ‘ نے بھی مختصر کردار میں بھرپور طریقے سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔

دیگر فلموں کی طرح اس فلم میں بھی بہت سارے اداکار ایسے ہیں، جن کا کوئی نام بھی نہیں جانتا، وہ ایکسٹراز کے طور پر کام کرتے ہیں، مگر ان کی وجہ سے مرکزی کردار امر ہوجاتے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ ان سب کو بھی کریڈٹ دینا یا کم از کم یاد رکھنا بے حد ضروری ہے۔

اسپیشل افیکٹس اور پاکستانی آرٹسٹ

اس فلم کی اسپیشل افیکٹس کی ٹیم میں ایک پاکستانی ہنر مند بھی شامل ہے، جس کا نام لاریب عطا ہے۔ وہ پاکستانی لوک گلوکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی بیٹی ہیں۔ اس فلم کے کچھ مناظر میں انہوں نے اپنے ہنر کو کامیابی سے آزمایا ہے۔ فلم کے آفیشل کریڈٹس میں ان کو digital compositor لکھا گیا ہے، جس کو آسان زبان میں بتایا جائے تو وہ ہنر مند ہے جو تصویروں کو جوڑ کر متحرک منظرنامہ بناتا ہے اور اس کے پیچھے کئی طرح کی کوڈنگ شامل ہوتی ہے۔ لاریب عطا نے بی بی سی ایشین نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے اس فلم سمیت اپنے دیگر کاموں کے حوالے سے بھی بات کی۔ ان کے علاوہ کراچی سے تعلق رکھنے والے میر ظفر علی بھی ہالی وڈ میں موجود اسی متعلقہ شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستانی فلم سازوں کو ان نوجوانوں سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔

نتیجہ

’مشن امپوسبل۔ فال آؤٹ‘ کامیابی سے دنیا میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ رہی ہے، لیکن اب یہ فلم سیریز اپنے اختتام کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ اس فلم میں کئی مناظر دیکھ کر احساس ہوا جیسے ٹام کروز خود کو دھرا رہے ہیں۔ اگر اس سیریز کو لمبا کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یا تو اب وہ نئی کہانیوں اور کرداروں کے ساتھ نئے مقامات پر آئیں جس کی مدد سے اس فلم سیریز کی کشش باقی رہے ورنہ امریکا، یورپ اور بھارت کی خاک وہ کافی چھان چکے ہیں۔

آج سے 22سال پہلے ہالی وڈ میں ٹام کروز نے مشن امپوسبل کی ابتداء اور پاکستان میں عمران خان نے سیاسی میدان میں اپنی جدوجہد کی شروعات کی، دونوں کامیاب ہوئے اور اب تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں، اس لیے انہیں کوئی اچھا سا موڑ دے کر اس سلسلے کو ختم کردینا چاہیے، ورنہ وہ کشش اپنا وجود کھو بیٹھے گی، جس کا جادو برسوں سے مداحوں کے دلوں پر جاری ہے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔