دنیا

افغانستان: کابل ائرپورٹ پر دھماکے سے 14 افراد جاں بحق، 60 زخمی

دھماکا اس وقت ہوا جب نائب صدر عبدالرشید دوستم ترکی سے واپسی پر ائرپورٹ سے بحفاظت جاچکے تھے، پولیس

افغانستان کے کابل انٹرنیشنل ائرپورٹ کے دروازے میں دھماکے سے کم ازکم 14 افراد جاں بحق اور 60 افراد زخمی ہوگئے جہاں جلاوطنی کے بعد واپس آنے والے نائب صدر عبدالرشید دوستم کے استقبال کے لیے شہریوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔

افغان حکومت کے سینئر عہدیداروں کا کہنا تھا کہ عبدالرشید دوستم کے استقبال کے لیے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی تاہم جیسے ہی وہ ائرپورٹ سے واپس جانے لگے تو دھماکا ہوا۔

عبدالرشید دوستم کے ترجمان بشیر احمد تیانجی کا کہنا تھاکہ دوستم بکتربند گاڑی میں سوار تھے اور محفوظ ہیں۔

—فوٹو:اے پی

کابل پولیس کے ترجمان حشمت استنکزئی کا کہنا تھا کہ واقعے میں تاحال 14 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہوگئے ہیں۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے حملے کو خود کش قرار دیتےہوئےکہا کہ خود کش حملہ آور پیدل تھا جبکہ متاثرین میں عام شہریوں کے علاوہ بچے اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ افغان نائب صدر عبدالرشید دوستم پر افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگے تھے جس کے بعد وہ مئی 2017 میں ترکی چلے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: طالبان اور داعش کے حملوں میں 29 افراد ہلاک

دوستم کی واپسی سے قبل ان کے سیاسی مرکز افغانستان کے شمالی علاقوں سمیت کئی صوبوں میں احتجاج کیا گیا تھا جہاں ان کے کارکنان نے کئی شاہراہوں کو بلاک کر دیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ حریف سیاسی رہنماؤں کو رہا کریں اور دوستم کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔

افغانستان کے صوبے فریاب میں احتجاج میں شامل رہنما احسان اللہ کووانچ کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے، ہم اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک دوستم ہمیں رکنے کا نہیں کہتےہیں’۔

انھوں نے فریاب صوبے کے ضلعی پولیس سربراہ نظام الدین قیصرانی کی رہائی کا مطالبہ بھی دہرایا جنھیں رواں ماہ کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا۔

احتجاجی مظاہرے میں شامل دوستم کے ایک اور حامی مسعود خان کا کہنا تھا کہ ‘ہم 20 دنوں سے احتجاج کررہے ہیں اور ہم اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے’۔

خیال رہے کہ 17 جولائی کو افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار اور شمالی صوبے سرپل میں دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) اور طالبان کے حملوں میں 9 پولیس اہلکاروں سمیت 29 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے 15 جولائی کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران سب سے زیادہ شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ اسسٹنس مشن (یو این اے ایم) نے بتایا کہ عسکری اور خود کش حملوں کے نتیجے میں ایک ہزار 6 سو 29 معصوم شہری جاں بحق ہوئے جو گزشتہ برس اسی عرصے کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے جبکہ 2009 کے بعد ہلاکتیں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق حملوں میں مجموعی طور پر تقریباً 3 ہزار 4 سو 30 افراد زخمی ہوئے، مذکورہ زخمیوں کی تعداد میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5 فیصد کمی رہی۔