آج کے دن پاکستان کے عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے، اس عمل کے بعد ایک نئی اسمبلی وجود میں آئے گی، کچھ اراکینِ اسمبلی حکومتی بینچوں پر بیٹھیں گے تو کچھ حزبِ اختلاف کی کرسیوں پر براجمان ہوں گے، یہی ریت ہے، چلتی آئی ہے اور چلتی رہے گی۔ پھر اگلے 5 سال تک اسمبلی میں مباحثے ہوں گے، سیاسی نعرے ہوں گے، تُو تُو، میں میں ہوگی، ممکنہ طور پر بجٹ کاپیاں پھاڑی جائیں گی اور کبھی کبھار آپس میں دست و گریباں ہوا جائے گا۔
مقدس ایوان جہاں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے غور و فکر ہونا چاہیے وہیں زیادہ تر سیاسی نشتر برستے اور دشنام طرازی کی بوچھاڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ مگر یہاں ان مسائل پر بات کرنا مقصد نہیں، بلکہ یہاں جس موضوع پر توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ ہے خواتین کا انتخابی عمل میں حصہ پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی اور سب سے بڑھ کر خواتین کے مسائل پر آواز۔
چلیے انتخابی عمل سے شروع کرتے ہیں۔ بدقسمتی کے ساتھ پاکستان میں پولنگ ڈے پر خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی رائے نہیں دے پاتی۔ ڈان اخبار کی ایک خبر کے مطابق 2013ء میں ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے صرف کراچی کے ضلع مغربی کے 26 پولنگ اسٹینشنوں پر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ صفر رہا۔ جی ہاں یہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے اعداد و شمار ہیں، اب ذرا تصور کریں کہ ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں میں کیا صورتحال ہوگی۔ چلیے وہ بھی ہم ہی بتائے دیتے ہیں۔
سندھ کمیشن اسٹیٹس آف وومین کے مطابق سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں 50 ہزار خواتین ووٹ نہیں ڈال پائیں، وجہ یہ تھی کہ ان کے مردوں نے انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی!
تاہم حالیہ برسوں میں خواتین کے حق رائے دہی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ مثلاً، اب ہمارے ہاں الیکشن کمیشن اس انتخاب کو تسلیم ہی نہیں کرے گی جہاں 10 فیصد سے کم خواتین نے ووٹ ڈالیں ہوں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت ہر سیاسی جماعت کو 5 فیصد جرنل نشستوں کے ٹکٹ خواتین کو جاری لازم قرار دیا گیا ہے، اس کے علاوہ عورتوں کو پولنگ ڈے پر تحفظ اور سہولیات دینے کے لیے اقدامات کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق حالیہ رجسٹریشن مہم کے دوران 38 لاکھ خواتین کا انتخابی فہرستوں میں اندراج کیا گیا۔
گزشتہ اسمبلی کی بات کریں تو فافن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ قومی اسمبلی میں 70 نشستیں خواتین نے سنبھالی ہوئی تھیں، جن میں سے 60 اراکینِ اسمبلی، خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی وجہ سے اسمبلی تک پہنچی تھیں جبکہ 9 جرنل نشستوں اور ایک اقلیتی نشست پر منتخب ہوکر آئی تھیں۔ مطلب یہ کہ 342 اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.46 فیصد رہی۔