جسٹس شوکت صدیقی کا عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام
راولپنڈی: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا ہے کہ ’خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا‘۔
راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے الزام عائد کیا کہ ’ آج کے اس دور میں انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی )پوری طرح عدالتی معاملات کو مینی پولیٹ کرنے میں ملوث ہے‘۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دعویٰ کیا کہ ’خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی تک رسائی کرکے کہا کہ ہم نے انتخابات تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا، شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں شامل مت کرو، اور میرے چیف جسٹس نے کہا جس بینچ سے آپ کو آسانی ہے ہم وہ بنا دیں گے‘۔
مزید پڑھیں: فوج کی اعلیٰ قیادت خفیہ اداروں کو لگام دے، جسٹس شوکت صدیقی
اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’ مجھے پتہ ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ان احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور بار ایک گھر ہے اور یہ ایک ہی گھر کی حویلی میں رہنے والے لوگ ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی سلب ہوچکی ہے اور اب یہ بندوق والوں کے کنٹرول میں آگئی ہے‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ جبکہ باقی دیگر اداروں پر عائد ہوتی ہے.
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کہ ’ مجھے یہ کہا گیا کہ آپ ہماری مرضی کے مطابق فیصلہ دیں گے تو نومبر کے بجائے ستمبر میں آپ کو چیف جسٹس بنا دیتے ہیں‘۔
اپنے اوپر دائر کرپشن ریفرنس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ’ بڑے عرصے سے میری خواہش تھی کہ بار کے سامنے آکر خود کو احتساب کےلیے پیش کروں، میرا سب سے بڑا احتساب میری بار ہی کرسکتی ہے‘۔
خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2 ریفرنسز زیر التوا ہیں، جن میں ایک ریفرنس بدعنوانی سے متعلق ہے، جو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے ) کے ایک ملازم کی جانب سے دائر کیا گیا جبکہ دوسرا ریفرنس گزشتہ برس ہونے والے فیض آباد دھرنے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں ان کے اہم ریمارکس سے متعلق ہے، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سوالات اٹھائے تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ یہ احتساب چند مہینوں کا نہیں، چند سالوں کا نہیں بلکہ تین دہائیوں پر مشتمل ہے، مجھے خود کو احتساب کے لیے آپ کے سامنے پیش کرنا تھا، لوگ آپ کو میرے بارے میں یہ تو کہیں گے کہ صدیقی صاحب بعض اوقات مصلحت سے کام نہیں لیتے بلکہ غصے کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ میرا جس طرح اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے اسی طرح مجھے یہ یقین ہے کہ میری بار سے کوئی ایک شخص اٹھ کر یہ نہیں کہ سکتا کہ شوکت عزیز صدیقی کسی طرح کی کرپشن میں ملوث ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہی وہ اعتماد تھا کہ میں نے اپنے بڑوں سے کہا کہ مجھے اپنے خلاف ان کیمرا سماعت نہیں چاہیے، میرا احتساب کرنا ہے تو سرعام کریں، میڈیا، بار اور عوام بھی اس میں موجود ہوں‘۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’جب بھی میری طرف سے کوئی اہم نوعیت کا فیصلہ آتا ہے تو ایک مہم چلا دی جاتی ہے اور یہ مہم ایک مخصوص کارنر سے چلائی جاتی ہے کہ یہ وہی جج ہیں جن پر کرپشن کا الزام ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں میڈیا کے ذریعے آج سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور دیکھیں کہ میرے اوپر لگا ایک بھی الزام سچ ثابت ہو تو مجھ سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں میں مستعفی ہوجاؤں گا‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے یہاں ’ پیشہ ورانہ اخلاقیات‘ کا عنوان دیا گیا ہے، جس کے مطابق میں 4 باتیں بتانا چاہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی دنیا بنانے یا بگاڑنے کے لیے اپنی آخرت نہیں خراب کریں، اپنی شناخت اپنی پہچان، اپنا تعارف بطور پیشہ ور وکیل کروائیں، جرائم میں کمی کا سبب بنیں اس میں اضافے کے سہولت کار نہیں بنیں، کتاب سے دوستی، علم سے جستجو، دلیل کی طاقت اور دانش و تدبر کی روشنی بنیں اس کے علاوہ کامیابی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیق نے کہا کہ ’ میری دانست میں پاکستان اس وقت بہت ہی کشمکش سے گزر رہا ہے، جو لوگ پاکستان کا موازنہ امریکا، برطانیہ، ترکی یا کسی اور ملک کے ساتھ کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ پاکستان کا موازنہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ساتھ ہوسکتا ہے امریکا کے ساتھ نہیں، آپ سوچیں وہ کون سے حالات ہیں جو پاکستان میں ہیں اور بھارت میں نہیں ہیں، کیا وہاں کرپشن، امن و امان کی صورتحال، دہشت گردی، عوامی عہدہ رکھنے والے کرپشن کے الزام میں نہیں ہیں اور وہ کون سے حالات ہیں جو دونوں ممالک میں مختلف ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت ترقی کی جانب گامزن ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک اور شو کاز نوٹس
اپنے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ بھارت 2030 میں دنیا کی آٹھویں بڑی معیشت ہوگا اور ہم پیچھے کی طرف جاتے جارہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک دن کے لیے مارشل لاء نہیں لگا، وہاں ایک دن بھی آئین کو پس پشت نہیں ڈالا کیا، وہاں ایک دن کے لیے سیاسی عمل نہیں رکا۔
انہوں نے کہا کہ ’ عدلیہ اور میڈیا کسی بھی ملک کے ضمیر کی آواز ہوتی ہے، اس پر اگر پابندی لگا کر اسے پابندی سلاسل کردیا جائے گا، اس کے لوگوں کی آزادی سلب کردی جائے گی تو پھر شاید پاکستان ایک آزاد اسلامی جمہوری ملک نہیں رہے گا، 70 سال میں ہم اس ملک کو نہ اسلامی بنا سکے، نہ جمہوری اور نہ ہی آئین کے تابع لاسکے، کیونکہ اس 70 سال کی زندگی میں 35 سال آمر کھا گئے‘۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’ ان 35 سال میں ہمارے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، ہمیں بات کرنے سے روکا گیا، یاد رکھیں جج نوکری سے نہیں انصاف، عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو سچ کہنے والے، سچ سننے والے، سچ کے مطابق فیصلہ کرنے والے، حق کی بات کہنے والے منصف عطا کرے ورنہ پاکستان کا اللہ حافظ ہے‘۔