پاکستان

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ: میڈیا کو لیک کرنے پر تفتیش کا آغاز

تفتیشی حکام کو یقین ہے کہ رپورٹ کے لیک ہونے کے معاملے میں وزیراعظم ہاؤس ملؤث نہیں ہوسکتا۔

اسلام آباد: ایبٹ آباد یا اسامہ بن لادن کی روپوشی اور ہلاکت پر قائم کیے جانے والے کمیشن کی چونکا دینے والے انکشافات پر مبنی رپورٹ کے لیک ہونے سے پیدا ہونے والی شرمندگی  کے بعد فوجی اور سویلین انٹیلی جنس اداروں نے تفتیش شروع کردی ہے کہ کیا یہ دستاویزات کمیشن کے ممبر میں سے کسی ایک نے میڈیا کے اداروں کو فراہم کی، یا پھر اس ڈرافٹ کی تیاری میں شامل افراد میں سے کسی نے ایسا کیا۔

اس رپورٹ کے لیک کیے جانے والے ورژن جس کو قطر میں قائم میڈیا کے ادارے الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈکیا، میں اوسامہ بن لادن کی کھوج میں ناکامی کا ذمہ دار تمام حکومتی اور فوجی اداروں کو مجموعی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، جبکہ اسامہ پاکستان میں ایک عرصے سے رہائش پذیر تھے۔ اس کے علاوہ یہ ادارے القاعدہ کے سربراہ کے خلاف اپاکستان کی سرحدوں کے اندر داخل ہوکر مریکی سیلز کے غیرقانونی آپریشن سے قبل از وقت آگاہ ہونے یا اس کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔

تفتیش کرنے والے حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ رپورٹ کے لیک ورژن کے میڈیا کے ادارے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہونے کے معاملے میں وزیراعظم ہاؤس ملؤث نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ اس پر کمیشن کے کسی رکن کے دستخط موجود نہیں ہیں، اس کے علاوہ اس کے بہت سے حصے نامکمل ہیں اور کمیشن کے اراکین کا اختلافی نوٹ بھی موجود نہیں ہے۔

ایک معتبر تفتیش کار کے مطابق ان سب میں سے غالب امکان یہ ہے کہ پہلے ڈرافٹ پر اتفاق رائے میں ناکامی کے بعد دوسرا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہو، اور قابل ذکر ناموں میں سے بہت سے ناموں کا  ہونا بھی ممکن ہے۔

اگرچہ ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی کمیشن سے قریبی ذرائع نے مستقل خاموشی اختیار کررکھی ہے، ممکن ہے کہ وہ اس اچانک انکشاف کے باعث صدمے کی سی کیفیت میں ہوں۔ وہ تفتیش کار جنہیں رپورٹ لیک کے معاملے کی تفتیش کی ذمہ داری دی گئی ہے، نے ڈان کو بتایا کہ جو ڈرافٹ میڈیا پر سامنے آیا ہے وہ ان میں سے دوسرا تھا۔ لیکن چونکہ اس پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا تھا، اس لیے کچھ اراکین نے اس پر دستخط سے انکار کردیا ۔

جبکہ کسی ایک فرد کی جانب سے بھی اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی، تفتیش کار ایک اختلافی نوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوؕئے کہتے ہیں کہ جو اس فائنل ورژن میں نامعلوم رکن کی جانب سے شامل کیا گیا ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس رپورٹ کا فائنل ورژن 4 جنوری 2013ء کو وزیراعظم سیکریٹیریٹ میں جمع کرایا گیا تھا، لیکن اس وقت راجہ پرویز اشرف کے دورِ حکومت کو مکمل ہونے میں صرف دس ہفتے ہی باقی رہ گئے تھے اور اس دوران اس رپورٹ پر غور نہیں کیا جاسکا تھا۔

تفتیش کار کا کہنا ہے کہ ”اسلام آباد کے بعض صحافی جو غیرملکی میڈیا کے اداروں سے تعلق رکھتے ہیں، کا یہ کہنا ہے کہ انہیں رقم کے بدلے میں اس رپورٹ کی فراہمی کی پیشکش کی گئی تھی، جبکہ میڈیا کے دیگر باخبر افراد اس رپورٹ کے لیک ہونے کے وقت کو مسلم لیگ نون کی انتظامیہ اور فوج کے درمیان تناؤ سے جوڑ رہے ہیں، ہم ان تمام زاویوں پر تفتیش کررہے ہیں۔“

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ بھی جائزہ لیے رہے ہیں کہ اس ڈرافٹ کی کتنی نقول تیار کی گئی تھیں، اس کو کہاں محفوظ رکھا گیا تھا اور کتنے سیکریٹریوں اور اسٹینوز وغیرہ کی اس تک رسائی تھی، اس کے علاوہ کمیشن کے کچھ اراکین کے لیے کام کرنے والے اسٹاف کے ہاتھ اس رپورٹ کے مسودے کی کاپی اتفاقاً ہاتھ لگ گئی ہو۔