نقطہ نظر

’مریم نواز کے علاوہ قید دیگر ہزاروں خواتین کا بھی احترام کیجیے‘

دیکھا جائے تو پاکستانی جیلوں میں بھٹوؤں اور شریفوں اور ان جیسے دیگر کو چھوڑ کر ہر قیدی دراصل موت کی سزا ہی بھگت رہا ہے۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کوئی بھی اپنی حقیقی زندگی میں جیل کو اندر سے نہیں دیکھنا چاہتا۔ تالا لگانے کی آواز، جھٹک کر بند ہوتے دروازے اور پیچھے رہ چکے قیدیوں کا شور، ان سب کا تصور کسی بھیانک خواب سے کم نہیں۔ جہاں تک تعلق ہے حقیقی قید خانوں کا تو پاکستان میں بہت ہی کم ان پر توجہ دینے کی زحمت کی جاتی ہے۔

لیکن 13 جولائی کے بعد صورتحال کچھ تبدیل ہوئی ہے۔ جمعے کے روز جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو لاہور ایئر پورٹ سے گرفتار کرکے اڈیالہ جیل لے جایا گیا، تب سے قید خانوں نے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ اس دن مریم نواز ملک کی جیلوں میں قید 3 ہزار 500 سے زائد خواتین اور بچوں کا حصہ بن گئیں۔

خبروں کے مطابق مریم نواز نے اپنی قید کے دوران بہتر کلاس، جسے عام زبان میں ’بی کلاس‘ کہا جاتا ہے، کی سہولیات کی درخواست سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے جس خط میں انکار کیا اسے اپنے فیس بک پر بھی پوسٹ کیا۔ تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انہیں اور ان کے والد کو جیل کے ایک اسپیشل ونگ یعنی انفرادی سیل میں رکھا گیا ہے جو جیل کی عام آبادی سے دور ہے۔

اگرچہ مریم نواز اپنی مادی اور سیاسی حیثیت کے لحاظ سے قید کے حالات کے حوالے سے کسی حد تک سہولیات حاصل کرسکتی ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر قیدی خواتین کو جس صورتحال کا سامنا ہے وہ یکسر مختلف ہے۔

حزبِ توقع ان میں سے اکثریت کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے۔ کئی تحقیقیں ظاہر کرتی ہیں کہ جیل میں ڈالے جانے سے قبل کئی خواتین کو منشیات کے مسائل اور ذہنی بیماریوں کا سامنا تھا، اس کے علاوہ جسمانی اور جنسی استحصال کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ زیادہ تر قیدی عورتیں نوجوان ہیں اور وہ بے روزگار اور زیادہ تر پاکستانی معاشرے کے پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خواتین اس سماج میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں جہاں کمزور ہونا ظلم و ستم کے لیے خود کو دستیاب کر دینے کے برابر ہے۔

پڑھیے: پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے 57 فیصد زائد

اڈیالہ جیل، جہاں اس وقت مریم نواز قید ہیں، 1986ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یہ جیل تب سے لے کر آج تک پاکستان کی دیگر جیل خانوں کی طرح گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا گھر بنی ہوئی ہے۔ پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق اس جیل کو 1 ہزار 900 قیدیوں کی گنجائش تھی، تاہم اس وقت اس جیل میں 6 ہزار سے زائد قید رکھے گئے ہیں جن میں سیکڑوں کی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں۔ چونکہ قیدی ماؤں کو اپنے بچے ساتھ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے اسی لیے یہاں ایسے سیکڑوں بچے بھی ہیں جو جیل کی دیواروں کے اندر ہی بڑے ہو رہے ہیں۔

جیل میں ری ہیبلیٹیشن اور تعلیمی سہولیات تو میسر ہیں مگر زیادہ تر مرد و خواتین قیدی ان تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ طبّی توجہ کی قلت ہے اور عام طور پر تشویشناک حالت اور اشد ضرورت پڑنے کی صورت میں ہی ان قیدیوں کو طبی توجہ نصیب ہوپاتی ہے۔ قیدیوں کو اپنا باقی کا وقت اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کئی نشے کے عادی قیدی آسانی سے منشیات حاصل کرلیتے ہیں جبکہ محافظوں کی جانب سے بدسلوکی اور استحصال ایک عام سی بات ہے۔ حتیٰ کہ بنیادی صحت و صفائی پر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔ صاف پانی، مناسب غذا اور صفائی ستھرائی جیسی سہولیات تک فراہم نہیں کی جاتیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جیل کی صورتحال بدترین ہے۔

13 جولائی کے بعد جہاں پاکستان میں اس وقت قید خانوں کو جو تھوڑی سی توجہ نصیب ہوئی ہے، وہیں غالباً ان دیگر خواتین پر دھیان دینے کی بھی ضرورت ہے جو اس وقت جیلوں میں قید ہیں۔ کئی تنظیموں نے قیدی خواتین کے حوالے سے تحقیقی کام کیا ہے۔ 2012ء میں پاکستانی جیلوں میں خواتین سے متعلق اقوام متحدہ کی جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق بنیادی اصلاحات سے قیدی عورتوں کے حالات زبردست حد تک بہتر ہوسکتے ہیں۔

اگر ان خواتین کو تعلیمی ملازمتیں فراہم کی جائیں تو اس کے غیر معمولی حد تک تعلیم کو فروغ دینے میں مدد ہوسکتی ہے اور چونکہ خواتین قیدی جیل میں موجود ہیں اور ان کے پاس کافی فراغت بھی ہے لہٰذا انہیں تعلیمی اداروں تک لانے کے لیے زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ اگر بنیادی تعلیمی ملازمتیں دستیاب ہوں تو خواندگی میں غیر معمولی اضافہ کیا جاسکتا ہے جسے پھر ان خواتین کی رہائی کے بعد کمیونٹی سطح پر پھیلایا جاسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جیل میں کئی قیدی خواتین مختلف ذہنی امراض اور مسائل سے دوچار ہیں، اگر انہیں بنیادی مینٹل ہیلتھ کیئر فراہم کیا جائے تو ان کی زندگیوں میں غیر معمولی بہتری آسکتی ہے اور وہ جیل کے اندر اور باہر اپنی زندگی کو بہتر انداز میں گزار سکتی ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ جیل بھیجنے جانے والوں کو بڑی حد تک بھلا ہی دیا جاتا ہے اور ان کے لیے خدمات کو حکومت پر بوجھ تصور کیا جاتا ہے ماسوائے ان قیدیوں کے جو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور زمینوں کے وارث ہیں۔

یوں دیکھیں تو پاکستانی جیلوں میں بھٹوؤں اور شریفوں اور ان جیسے دیگر کو چھوڑ کر ہر قیدی دراصل موت کی سزا ہی بھگت رہا ہے۔

پڑھیے: 'جانے کس جرم کی پائی ہے سزا'

تالا لگنے کے بعد قیدیوں کے ساتھ جیل کی دیواروں کے اندر جو سلوک برتا جاتا ہے اس میں جیسے اخلاقیات اور اخلاقی ذمہ داری کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ اگر مرد محافظ خواتین قیدیوں کا ریپ کر رہے ہیں، اگر بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ذہنی امراض کے مسائل سے دوچار جن خواتین کو علاج معالجے کی ضرورت ہے لیکن اگر انہیں باندھ کر رکھا گیا ہے یا پھر انہیں ان کی غلاظت کے ساتھ اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، تو اگر ایسا ہے تو ہے۔ ہم بس کندھے اچکائیں گے اور بھول جائیں گے۔

مراعات یافتہ قیدیوں کو فراہم کی جانے والی خصوصی سہولیات کا تعلق محض علیحدہ سیلوں، بہتر باتھ رومز یا گھر کے کھانے سے نہیں۔ اخلاقی اعتبار سے، جب مراعات یافتہ اشخاص کو قید میں رکھا جاتا ہے تو انہیں تیل مالش کے ساتھ ساتھ، ایسے بلند اخلاق والے لوگوں کا درجہ بھی دے دیا جاتا ہے کہ جنہوں نے دشواریاں سہی ہیں اور اسی لیے وہ ادب و احترام کے مستحق بھی ہیں۔

گرمی، بند دروازوں کے خوف اور گندے باتھ رومز کے ساتھ قید کی صعوبت سیاستدانوں کو زیادہ کامیاب اور باہمت بنانے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے آہن میں تبدیل کردیتی ہے جس کو آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا ہے۔ وہ سیاستدان جو قید خانے سے ابھرتے ہیں یا جب وہ قید خانے سے ابھرتے ہیں تب وہ قید خانے میں حاصل کردہ بااخلاق سلوک سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ اپنی قید کا ذکر بار بار اپنی تقریروں میں دہراتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیونکہ لوگ ان کی بات پر یقین کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔

اگر جیلوں میں موجود خواتین کے لیے وسائل فراہم نہیں کیے جاسکتے تو کم از کم دشواریاں دیکھنے والے سیاستدانوں جتنا احترام و ادب تو ضرور بخشا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر خواتین معمولی جرائم، مبینہ واقعات یا پھر تھوڑی مقدار میں منشیات بیچنے کے جرم میں جیلوں میں قید ہیں۔

ایسی خواتین جو بڑے جرائم میں ملوث ہیں اور جن کا کبھی مقدمہ نہیں چلا، ان کے علاوہ دیگر قیدی خواتین ایک ایسے معاشرے کا حصہ بننے کی امید کرسکتی ہیں جہاں ان کی قید کو باعثِ بدنامی نہیں سمجھا جاتا بلکہ جہاں قید کو دشواریاں سہنے اور ڈٹے رہنے کی علامت تصور کیا جاتا ہے، تو پھر شاید انہیں پاکستانی جیل میں مل رہی موت کے بعد زندگی گزارنے کا موقع حاصل ہوجائے۔

یہ مضمون 18 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔