پی آئی اے پر مسافروں کو نظر انداز کرکے وی آئی پیز کیلئے ’ایئر سفاری‘ کا الزام
گلگت/راولپنڈی: اسکردو ایئرپورٹ پر مسافر اور سیاحوں نے قومی ایئرل ائن (پی آئی اے) کی فلائٹ 4 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچنے پر سخت احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ ایئر لائن انتظامیہ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے افسران کو ’فضائی سیر‘ کرانے کی غرض سے صارفین کے بنیادی حقوق کا استحصال کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کی اسلام آباد سے اسکردو فلائٹ نے منگل (17 جولائی) کی صبح پرواز کا آغاز کیا جس میں سی اے اے حکام اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اکبر تابان بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کا خسارہ 406 ارب تک پہنچ گیا
اسلام آباد سے اسکردو فضائی سفر کا دورانیہ 45 منٹ ہوتا ہے تاہم اسکردو کے مسافروں نے بتایا کہ فلائیٹ کو اسکردو پہنچنے میں 4 گھنٹے لگے جس کے بعد انہیں بورڈنگ پاس جاری ہوا۔
انہوں نے 4 گھنٹے تاخیر کی وجہ بتائی کہ فلائٹ میں وی آئی پی مسافر سوار تھے جنہیں کے ٹو، نانگا پربت اور دیگر چوٹیوں کی فضائی سیر کرائی گئی۔
مسافروں نے الزام عائد کیا کہ اسکردو میں پی آئی اے کی انتظار گاہ میں وی آئی پی کی موجودگی کے باعث واش روم استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔
دوسری جانب اسکردو میں موجود ایک غیر ملکی خاتون سیاح نے سوشل میڈیا پر پی آئی اے انتظامیہ کی مجرمانہ غلفت کے خلاف سخت احتجاج کیا اور کہا کہ ’اسلام آباد میں لوگ ہمارا انتظار کررہے ہیں جبکہ پی آئی اے انتظامیہ نے انہیں پچھلے 4 گھنٹے سے یرغمال بنا رکھا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی کارروائی، آن لائن فراڈ میں ملوث 3 نائجیرین شہری گرفتار
اس کے ساتھ ہی سی اے اے ڈائریکٹر جنرل حسن بیگ اور پی آئی اے کے مابین الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا، سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل حسن بیگ نے فلائٹ کو ’ذاتی‘ سیر کے لیے استعمال سے متعلق الزام کی تردید کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر مشروف رسول کی درخواست پر فضائی سیر کرائی گئی تھی۔
اس حوالے سے سی اے اے ڈائریکٹر جنرل حسن بیگ نے کہا کہ ’واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور پی آئی اے کے سی ای او سے معاملے پر وضاحت طلب کرلی گئی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر مسافروں کو پریشانی کا سامنا رہا تو پی آئی اے ذمہ داری قبول کرے گی‘۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے طیارے کی جرمن میوزیم کو فروخت:نیب کو تحقیقات کا حکم
دوسری جانب پی آئی اے ترجمان مسعود تاجور نے دعویٰ کیا کہ اسکردو ایئر پورٹ پر مسافر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر شکایت کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلگت اور اسکردو کی فلائٹ کا موسم سے گہرا تعلق ہے اور اس حوالے سے ٹکٹ پر واضح طور پر تحریر ہے۔
انہوں نے اپنے دفاع میں واضح کیا کہ ’اسلام آباد میں فلائٹ کو 2 گھنٹے تاخیر کا سامنا رہا اور اس کے نتیجے میں ریٹرن فلائٹ مزید تاخیر سے دوچار ہوئی تھی۔
تاجور نے بتایا کہ قوائد و ضوابط کے مطابق تمام مسافروں کو فلائٹ میں تاخیر سے متعلق پیغامات ان کے موبائل پر ارسال کر دیئے گئے تھے اور یہ ہی عمل فلائٹ کے پی 425 (اسکردو سے اسلام آباد) کے مسافروں کو کیے گئے۔
پی آئی اے کے ترجمان نے وضاحت پیش کی کہ ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے اسٹاف نے مسافروں کو بتا دیا تھا اور موسم کی خرابی کے باعث مسافروں کو درپیش پریشانی پر افسوس کا اظہار کیا۔
پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ ایئر لائن شمالی علاقوں کے سیاحتی مقامات کی ترویج کے لیے کوشاں رہتی ہے اور اسی سبب روزانہ کی بنیاد پر اسلام آباد سے اسکردو فلائٹ موجود ہیں جن میں 15 سے 20 منٹ کا فرق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فلائٹ کے دوران مسافروں اور سیاحوں کو قراقرم سلسلے کے بارے میں لائیو ڈاکیومنٹری پیش کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ افتتاحی فلائٹ نہیں تھی عام طور پر اسکردو یا گلگت جانے والی فلائٹس پر ملکی اور غیر ملکی سیاح، سفر کرنے کی شوقین، صنعت کار ہوتے ہیں۔
مسافروں کو ایئرکنڈیشن اور واش روم جیسی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی سے متعلق شکایت کے حوالے سے انہوں کہا کہ پی آئی اے متعلقہ حکام سے اس بارے میں پوچھیں گی۔
یہ خبر 18 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی