نواز، مریم اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت مقرر
اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے اپنی سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئیں اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردی گئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ منگل 17 جولائی کو اس پر سماعت کرے گا۔
اس سے قبل شریف خاندان کے وکلاء کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق فیصلے کو معطل کرنے اور نواز شریف کے خلاف 2 زیر سماعت ریفرنسز کو دوسرے جج کو منتقل کرنے سے متعلق 3 اپیلیں دائر کی گئیں تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی جانب سے خواجہ حارث جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی جانب سے ان کے وکیل امجد پرویز نے درخواست دائر کی تھی۔
عدالت عالیہ میں دائر اپیلوں میں موقف اختیار کیا گیا کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے امکانات اور مفروضے کی بنیاد پر فیصلہ دیا۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی دائر اپیلوں میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا کیس بے بنیاد ہے کیونکہ اس میں ایون فیلڈ اثاثہ جات خریدنے کے وقت کی لاگت تک نہیں بتائی گئی اور نہ ہی اس میں اس وقت نواز شریف کی آمدنی کے تخمینے کے بارے میں بتایا گیا، اس کے علاوہ استغاثہ کی جانب سے لندن اثاثہ جات سے متعلق نواز شریف ملکیت کے بارے میں ایک ثبوت تک پیش نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپیل میں ٹرسٹ ڈیڈ میں کلیبری فونٹ کے استعمال سے متعلق کہا گیا کہ فارنزک ماہر رابرڈ ریڈلے نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ فونٹ ٹرسٹ ڈیڈ بنانے سے پہلے موجود تھا۔
عدالت میں دائر اپیل میں استدعا کی گئی کہ وہ احتساب عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد موخر کریں، ساتھ ہی 6 جولائی کے فیصلے اور شریف خاندان کی سزا کو اپیلوں پر فیصلہ آنے تک معطل کریں۔
دوسری جانب نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سے لے کر کسی دوسرے جج کو منتقل کرنے سے متعلق اپیل بھی دائر کی۔
اس اپیل میں موقف اپنایا گیا کہ ان دونوں ریفرنسز میں ثبوت ایون فیلڈ ریفرنس کی طرح ہی ہیں اور جج محمد بشیر پہلے ہی دفاع میں دلائل مسترد کرچکے ہیں لہٰذا ان ریفرنسز کو دوسرے جج کو منتقل کیا جائے۔
ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ 6 جولائی کو احتساب عدالت کی جانب سے جو فیصلہ دیا گیا، اس میں جج کی جانب سے یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2005 میں نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتول رہنما بینظیر بھٹو کے درمیان ’چارٹر آف ڈیموکریسی ‘ کی دستاویزات پر دستخط کیے تھے، جس میں اس میں دونوں رہنماؤں نے اپنے ماضی کو دفن کرنے کا عہد کیا تھا اور مسلم لیگ (ن) آج بھی اپنے اس عہد پر قائم ہے۔
ادھر اپیل دائر کرنے کے بعد امجد پرویز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امکانات یا سنی سنائی باتوں پر سزا نہیں دی جاسکتی اور اسی وجہ سے پوری دنیا اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپیل دائر کی ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلہ غیر قانونی بنیادوں پر دیا گیا، لہٰذا اس فیصلے کو معطل کیا جائے۔
ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ
خیال رہے کہ 6 جولائی شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے ساتھ ناانصافی نے عوام کو جگادیا، مریم نواز
اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات پر مریم نواز کو والد کے اس جرم میں ساتھ دینے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق تحقیقات میں نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر علیحدہ ایک، ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اس طرح مجموعی طور پر نواز شریف کو 11 اور مریم کو 8 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔