تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو ملک میں نئے سیاسی دور کا آغاز تصور کیا جاتا ہے، یہ جماعت علامہ خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان کا سیاسی ونگ ہے۔
اس سے قبل 2017 میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-120 پر تحریک لبیک پاکستان کے حمایت یافتہ اُمیدوار نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا.
پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی پھانسی سے قبل خادم حسین رضوی نے یہ پلیٹ فارم بنایا تھا، جو کہ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے متحرک رہا، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں ممتاز قادری کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے بعد خادم حسین رضوی نے اس پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی، جس سے ملک کے اہم مذہبی رہنما منسلک ہوئے اور ایک مذہبی جماعت قائم کی، جسے پیر افضل قادری نے تحریک لبیک یارسول اللہ کا نام دیا۔
ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کو پارٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا جبکہ علامہ خادم حسین رضوی کو پارٹی کا سرپرست اعلیٰ اور پیر افضل قادری کو سرپرست بنا دیا گیا۔
یہ تحریک لبیک پاکستان ہی تھی جس نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر 2016 کو ممتاز قادری کے چہلم کے سلسلے میں 4 روزہ دھرنا دیا تھا۔
2017 میں تحریک لبیک پاکستان کو عوامی سطح پر متعارف کرایا گیا، علامہ خادم حسین رضوی کی جانب سے تحریک لبیک یارسول اللہ کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرانے کی کوشش کی گئی، تاہم کمیشن نے پارٹی کے تجویز کردہ نام پر اعتراض کیا، جس کے بعد ڈاکٹر جلالی اور خادم حسین رضوی کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے، دونوں نے اپنے راستے جدا کرلیے، جس کے بعد علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر کی مشاورت سے جماعت کے سیاسی ونگ نام تحریک لبیک پاکستان رکھا اور اسے الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ بھی کر لیا۔
2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-120 سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا، یہ علاقہ مسلم لیگ (ن) کا اہم ترین حلقہ تصور کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں پارٹی نے ضمنی انتخابات این اے-4 (پشاور)، این اے-154 (لودھراں) اور پی پی-20 (چکوال) سے حصہ لیا، جس کے لیے الیکشن کمیشن نے انہیں ’کرین‘ کا نشان الاٹ کیا تھا۔
پارٹی کے کسی بھی اُمیدوار نے ضمنی انتخابات میں کسی بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں ک، تاہم یہ جماعت ملک میں ایک اُبھرتی ہوئی سیاسی طاقت کے طور پر سامنے آرہی ہے۔
تحریک لبیک پاکستان نے الیکشن ایکٹ-2017 میں مبینہ طور پر ختم نبوت کے کالم میں ہونے والی ترمیم کے باعث اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا، اس وقت کے اہم وفاقی وزیر کے استعفے کا مطالبہ کیا، ابتدا میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ 3 گھنٹے میں دھرنا ختم کرادیں گے، تاہم یہ دھرنا 20 روز تک جاری رہا اور آخر کار پولیس کے ناکام آپریشن کے بعد فوج کی مداخلت پر دھرنا ختم ہوا، تاہم حکومت کو مظاہرین کے متعدد مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔
فیض آباد دھرنے کے دوران تحریک لبیک پاکستان نے ملک کے دیگر شہروں میں فیض آباد دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنا دیئے اور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔
2017 کے دھرنے کا اعلان تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کی جانب سے کیا گیا تھا جبکہ فوج کی مداخلت کے باعث مظاہرین اور حکومت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا گیا، تاہم فوج کی مداخلت پر دھرنے کے اختتام پر عدلیہ نے نوٹس لیا جبکہ فوج کے اس اقدام کو ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔