لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں ایک شخص کے دل کو زبردست اہمیت دی گئی ہے۔ دل وہ عضو ہے جسے انسانی وجود کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اہم و ضروری توانائی وصول کرتا ہے اور جسم کے دیگر عضوؤں تک پہنچاتا ہے، مگر کبھی کبھی معاملات کچھ بگڑ بھی سکتے ہیں۔
اس لیے قرآن مومنین پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لیں۔ یہ مومنین کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا کریں: "اے رب نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب تو ہم کو ہدایت کر چکا اور عنایت کر ہم کو اپنے پاس سے رحمت تو ہی ہے سب کچھ دینے والا" (آلِ عمران، آیت 8)
چوں کہ دل صحیح اور غلط کے درمیان جھولتا رہتا ہے، اس لیے اسے وجود کا بہترین اور بدترین حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ دل سفید بھی ہو سکتا ہے اور سیاہ بھی، ہدایت یافتہ بھی اور بھٹکا ہوا بھی، منور بھی اور اندھیر بھی، اس لیے انسان کو ان ذرائع کی مدد لینی پڑتی ہے جو کہ اسے دل کا جائزہ لینے میں مدد دیں۔
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ: "انسانی جسم کے اندر گوشت کا ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر وہ صحیح ہو تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور اگر اس میں خرابی پیدا ہوجائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے۔ جسم کا یہ حصہ دل ہے۔"
دل کی روز مرہ کی صورتحال انسان کو خوش یا اداس رکھتی ہے۔ اگر دل غیر مطمئن ہو تو خوشی انسان سے روٹھ جاتی ہے۔ دل ہی ہماری تمام خواہشات، ہمارے عزم، اور ہماری نیتوں کو برقرار رکھتا ہے۔ ہم اپنے دل کو خوش رکھنے کے لیے اپنی خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی جب ہمارا دل ناخوش ہوتا ہے تو اس کا اظہار ہمارے لوگوں سے روز مرہ کی ملاقاتوں میں ناخوشی کے ذریعے ہوتا ہے۔
ایک ناخوش دل ہمارے دنوں کو روکھا، ہماری راتوں کو بے خواب، اور ہمارے کھانوں کو بے ذائقہ بنا دیتا ہے۔ ہم اپنے کام پر توجہ نہیں دیتے اور ہر کسی سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پڑھیے: رسول اللہ ﷺ سے محبت کا تقاضہ
اس لیے اپنے دل کو خوش رکھنا ہر کسی کی زندگی کا سب سے بڑا کام ہے۔ مگر مادی فوائد یا دنیاوی خواہشات کے پورا ہونے سے ہمارا دل خوش نہیں ہوتا کیوں کہ قرآن کہتا ہے کہ "وہی ہے جس نے اتارا اطمینان دل میں ایمان والوں کے" (الفتح، آیت 4)۔ یہ اللہ کی یاد ہے جو انسان کو حقیقی خوشی دیتی ہے۔
انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں دل کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس اس کی غیر مستقل حالتِ زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتی ہے۔ جسمانی سطح پر دیکھیں تو دل انسانی جسم کا اہم ترین حصہ ہے اور پورا نظامِ خون اس پر منحصر ہے۔ ایک کھوکھلے عضلاتی پمپ کی طرح اس کا بنیادی مقصد پورے جسم کو خون پہنچانا ہے۔ یہ دل ہی ہے جس کا ڈاکٹر آپریشن کرتے ہیں اور جسے فزیشن ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں۔ اگر دل ناکام ہوجائے تو ہمارا مکمل جسم سانس لینا اور کام کرنا بند کر دیتا ہے، نتیجتاً ہمارا وجود ختم ہوجاتا ہے۔
نفسیاتی طور پر بات کریں تو دل ہی وہ جگہ ہے جہاں سے انسان کے تمام احساسات، جذبات اور مزاج جنم لیتے ہیں جن کا پھر پوری شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنی کوششوں کا من چاہا نتیجہ حاصل نہ کر سکیں تو ہمارا دل اداس ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص کی بے عزتی کی جائے تو دل کو ٹھیس پہنچتی ہے؛ جب ہم فکرمند ہوتے ہیں تو ہمارا دل ہمارے جسم کو بے آرام کر دیتا ہے؛ جب ہماری تعریف کی جائے تو ہمارا دل خوش ہوتا ہے؛ اور دل ہی ہے جہاں ہمارے تمام راز پنہاں ہوتے ہیں۔
سماجی طور پر دیکھیں تو ہم اپنا دل اسے دیتے ہیں جسے ہم سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہم دل کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ کر قومی ترانے کے لیے اپنی عزت یا کسی عوامی عہدے کے حلف سے اپنی دیانتداری کا ثبوت دیتے ہیں۔
پڑھیے: مکّہ معظمہ میں اُردو کا بول بالا
ہم اپنے قریبی رشتے داروں، دوستوں، اور دیگروں کو خصوصی مواقع پر گلے لگاتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے دیکھیں تو کہا جاتا ہے کہ ہر مومن کا دل اللہ کا گھر ہے (قلب المومن بیت اللہ) اس کے سماجی اثرات بھی ہیں کہ کسی بھی شخص کو کسی دوسرے کا دل نہیں توڑنا چاہیے، کیوں کہ یہ 'اللہ کا گھر ہے‘۔ کسی کا دل جیتنا اللہ کی خوشی جیتنے کے برابر ہے۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو زیادہ تر مومنین انسانی دل کو روحانی وجود کی بنیاد سمجھتے ہیں، یعنی یہ دل ہی ہے جو جھکتا ہے اور پھر پورا جسم اس کی تقلید کرتا ہے۔ اللہ وہ ہے جو دلِ انسانی کی جھلی اور دل کے بیچ موجود ہے "اور جان لو کہ اللہ روک لیتا ہے آدمی سے اس کے دل کو" (انفعال، آیت 24)۔
اسلام میں کوئی بھی عبادت یا نیکی کا کام تب تک قبول نہیں ہے جب تک کہ اسے دل و دماغ کے ساتھ ادا نہ کیا جائے۔ دل کے اندر مومن نور اور ہدایت وصول کرتا ہے؛ وہ ذکر کے ذریعے دل سے اپنے خالق کو یاد رکھتا ہے تاکہ اس کی روح ترقی پائے۔
ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ نے انسان کو زیادہ تر عضو جوڑوں کی صورت میں دیے ہیں، مثلاً آنکھیں، کان، ہاتھ، اور ٹانگیں، مگر دل صرف ایک ہے۔ اس لیے مومن کے دل میں اللہ کے علاوہ اور کسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ کہتا ہے کہ "کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے" (الاحزاب، آیت 4)
خلاصہ یہ ہے کہ انسانی دل کی اہمیت بیان سے باہر ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ ہم باقاعدگی سے دل کا جائزہ لیں تاکہ اس دنیا میں پرسکون زندگی کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اکرام ملتے رہیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 جولائی 2018ء کو شائع ہوا۔