دنیا

امریکی صدر افغانستان میں جاری جنگ کے منفی نتائج سے مایوس

وائٹ ہاؤس نےافغان حکمت عملی پر باقاعدہ کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا لیکن اگلے چند ماہ میں اس میں تبدیلی کا مکان ہے، حکام

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں متعارف کرائی گئی نئی افغان پالیسی سے متعلق مایوس کن نتائج آنے کے بعد واشنگٹن حکام افغان پالیسی میں نظر ثانی پر غور کررہے ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغان حکمت عملی کے غیر متوقع نتائج پر سخت مایوسی کا اظہار کیا، اس حکمت عملی کا اعلان گزشتہ برس اگست میں کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور روس کی افغانستان میں نئی کھینچا تانی

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا کی نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں عسکری مشیروں، تربیت کاروں اور اسپشل فورسز کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی مدد شامل تھی، اس کے علاوہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا بھی نئی حکمت عملی کا حصہ تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امریکی مداخلت کے مخالف رہے لیکن ان کے مشیروں نے انہیں افغانستان میں جنگ جاری رکھنے پر راضی کرلیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس 3 ہزار اضافی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کی منظوری دی تھی اس طرح کل امریکی فوجیوں کی تعداد 15 ہزار ہو گئی ہے۔

امریکی حکام اور سابق ذمہ داران اور مشیروں نے تصدیق کی کہ وائٹ ہاؤس نے افغان حکمت عملی پر باقاعدہ کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا لیکن افسران کی جانب سے اگلے چند ماہ میں نئے حکم نامے کا اعلان متوقع ہے اور اس ضمن میں تیاریاں جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان کا عید پیغام،امریکا کو پھر براہ راست مذاکرات کی پیشکش

سینئر امریکی افسر نے بتایا کہ ’ہمیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے اشارہ ملا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگلے چند ماہ میں نظر ثانی کے حوالے سے رائے طلب کر سکتے ہیں اور ہم اس کی تیاری کررہے ہیں‘۔

نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے بذریعہ ای میل بتایا تھا کہ ’ہم اپنی پالیسی یا حکمت عملی کا باقاعدہ جائزہ لیتے ہیں تاکہ امریکی وسائل کو استعمال بہتر انداز میں کیا جا سکے تاہم افغانستان پالیسی سے متعلق کلیدی حکمت عملی میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ برسلز میں اپنے نیٹو اتحادیوں اور پارٹنرز سے ملیں گے اور ان سے افغانستان میں یکساں بنیادوں پر فرائض انجام کرنے کا تقاضہ کریں گے۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملے کا آغاز کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم عدم اور ناکافی ثبوتوں کی روشنی میں ہی سابق امریکی صدر جارج بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کی تھی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔

اس جنگ کے آغاز کے بعد سے ایک عشرے سے زائد جاری رہنے والی جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ہزاروں افغان شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد بے گھر ہوگئے۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

مزید پڑھیں: 'امریکا کی موجودگی میں افغانستان میں داعش کیسے آئی'

نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی 'بش ڈاکٹرائن' کو جنم دیا اور افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا.

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چند ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتانامو اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔