لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
پہلے نواز شریف کو سزا ہوئی اب سابق صدر آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ صورتحال پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سب احتساب کے نام پر ہو رہا ہے، جو کہ ایک صاف ستھرا نام ہے اس چیز کا جسے چند لوگ سر اٹھاتی ’عدالتی مارشل لاء‘ پکارتے ہیں۔ عام انتخابات سے فقط چند ہفتے قبل اس قسم کے ڈرامائی اقدام نے پرسکون انتخابی عمل کے حوالے سے چند سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
کیا نواز شریف کی سزا کے چند دنوں بعد ہی زرداری اور ان کی ہمشیرہ سے جڑا اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا اسکینڈل منظر عام پر آنا محض اتفاق ہوسکتا ہے؟ یہ تو واضح ہے کہ اس غیر معمولی مبینہ جرم کے حوالے سے ایک عرصے سے تحقیقات جاری ہے۔ الزامات کی صداقت پر تو شبہ کرنے کی بظاہر تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کیس کو اس وقت ہی کیوں منظر عام لایا گیا ہے کہ جب انتخابات قریب تر ہیں؟
نواز شریف اور ان کی بیٹی سزا کو چیلنج کرنے آ رہے ہیں اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جارہا ہے، یوں صورتحال نہایت پریشان کن بن چکی ہے۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے اور پرسکون جمہوری منتقلی کو ممکن بنانے کے لیے نگران حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کیسی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
پڑھیے: نواز شریف کے لیے کوئی بھی فیصلہ آسان نہیں
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ زرداری کے خلاف ایکشن ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی قسم کی ڈیل کے بارے میں کہانیاں گردش میں ہیں۔ ان شکوک و شبہات میں گزشتہ برس تھوڑی بہت سچائی کی جھلک نظر آنے لگی تھی جب سیکیورٹی اداروں نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے قربت رکھنے والے اشخاص کے خلاف کارروائیاں اچانک روک دیں۔ بظاہر اس مبینہ ڈیل کا مقصد پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرنے سے روکنا تھا کہ جب نواز شریف کو نااہل قرار دے کر کرپشن الزامات پر ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا۔ انہوں نے 2014 کے دور سے سبق سیکھ لیا تھا کہ جب پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو پی ٹی آئی دھرنوں کے طوفان سے بچا لیا تھا، لہٰذا پارٹی کو غیر جانبدار بنانا ضروری سمجھا گیا۔
زرداری کے لیے اپنے اوپر اور اپنے دوستوں کے سر پر سے دباؤ ختم کرنا بھی ضروری تھا۔ اس منصوبے نے کام بھی دکھایا کیونکہ پیپلزپارٹی نے نہ صرف نواز شریف کی نااہلی کی تائید کی بلکہ ان کے خلاف چلنے والے کرپشن کے مقدمے کی بھی حمایت کی۔ ایک چالاک سیاستدان زرداری، جنہیں خود کے جوڑ توڑ کے ماہر ہونے پر فخر ہے، نے مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگا دیے جانے پر ابھرتے ہوئے منظر نامے میں پیپلزپارٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ حاصل کرنے کا سوچا۔
زرداری نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پیپلزپارٹی انتخابات کے بعد حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ انہوں نے شاید سوچا کہ وہ اپنی پارٹی کی سندھ میں یقینی انتخابی پوزیشن کی مدد سے ممکنہ کسی ایک جماعت کی اکثریت سے عاری پارلیمنٹ میں کنگ میکر کا کردار کرسکیں گے۔ جب پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کو ایوان بالا پر قبضہ کرنے سے روکنے کی خاطر پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرکے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ حاصل کیا تھا تب زرداری کا اور بھی اعتماد بڑھا ہوگا۔ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ راتوں رات ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتوں میں اتحاد کیسے قائم ہوگیا۔
تاہم زرداری جتنے بھی چالاک کیوں نہ نظر آئیں، انہیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ یہ صرف محدود وقت کی بات ہے اور وہ بھی جلد ہی احتساب کی کلہاڑی کے نیچے آنے والے ہیں جس کے نیچے ایک طاقتور سیاسی رہنما پہلے ہی آچکا ہے۔ تحقیق کار دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اتنا مواد حاصل کرلیا ہے جو سابق صدر کے خلاف مقدمہ چلانے کے کافی ہے۔
اگر میڈیا پر آنے والی خبریں درست ہیں تو باہر منتقل ہونے والا پیسہ درحقیقت اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ہے۔ اطلاعات کے مطابق پیسوں کی مبینہ منتقلی درجنوں جعلی بینک اکاؤنٹس سے کی گئی، جن میں سے متعدد کا تعلق زرداری، ان کی ہم شیرہ، دوست اور بزنس ساتھیوں جڑتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق زیادہ تر مبینہ منتقلیاں ایک ایسے بینک کی گئیں جس کا مالک پیپلزپارٹی رہنما کے قریبی دوست ہیں۔ بلاشبہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔
پڑھیے: 'نواز شریف کے لیے اور کوئی آپشن نہیں بچا ہے'
مگر اتنی ہی پریشان کن بات یہ ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات برسوں پہلے شروع ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ معلومات قریبی ساتھیوں سے حاصل کی گئی ہے جنہیں 2015 میں کراچی میں انٹیلجنس اداروں کی جانب سے جاری کریک ڈاؤن کے دوران اٹھایا گیا تھا۔ مگر زرداری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کسی قسم کے باضابطہ الزامات عائد نہیں کیے گئے۔ اس طرح اس مقبول عام تصور کو تقویت ملی کہ سیاسی مصلحت کی وجہ سے کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر یہ سچ ہے تو اس سے ان الزامات میں وزن بڑھ جاتا ہے کہ مالی کرپشن کے الزمات کو اکثر سیاستدانوں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب ایسے مقدمات کو سرد خانے میں رکھ دیا گیا اور پھر سیاسی ضرورت کے تحت اس میں دوبارہ جان ڈال دی گئی۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ لوگوں کو تحقیقاتی اداروں اور عدالتی کارروائی پر بھروسہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مالی کرپشن کے الزامات اور جیل میں کئی برس گزارنے کے باوجود بھی زرداری کو کبھی مجرم قرار نہیں دیا جاسکا۔
اس سے بڑی ستم ظریفی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ سب سے زیادہ بدنام شخص صدر بن گیا اور اس ملک کی قسمت کا مالک بن گیا؟ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ کئی لوگ زرداری کے خلاف ان تازہ الزامات کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے اور شاید انتقامی کارروائیوں کے طور پر بھی دیکھیں گے، چاہے وہ کتنے ہی پختہ کیوں نہ ہو۔ ایک ایسے عدالتی نظام جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اسے حقیقی قوتیں توڑتی مروڑتی رہتی ہیں، اس میں موجود خامیوں کے پیش نظر کیا انہیں کوئی غلط کہہ سکتا ہے؟
کارروائی کی ٹائمنگ خاص طور پر بڑے تجسس میں مبتلا کرتی ہے اور اس سے ان سازشی مفروضوں کو بھی تقویت ملی ہے کہ اپنی ’مرضی کے نتائج‘ حاصل کرنے کی خاطر سیاستدانوں کو انتخابات سے قبل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واقعات کی کَڑیاں اس شبے کو مضبوط کرتی ہیں۔ بلاشبہ وائٹ کالر جرائم بالخصوص مالی جرائم کو ثابت کرنا خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں کبھی بھی آسان نہیں ہوتا کہ جہاں تحقیقات کو آسانی سے توڑا مروڑا جاسکتا ہے۔
مزید براں، ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ آیا یہ مقدمہ منی لانڈرنگ کا ہے یا کرپشن کا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے از خود نوٹس نے اس کنفیوژن کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق زرداری اور فریال تالپور کے نام مجرم ٹھہرانے کو تو چھوڑیں باضابطہ طور پر الزامات عائد کیے بغیر ہی ای سی ایل پر ڈال دینے کا فیصلہ یقیناً قبل از وقت ہے۔
یہ زیادہ مناسب ہوتا اگر ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے قبل تحقیقات کو مکمل ہونے دیا جاتا۔ پیپلزپارٹی کا مؤقف درست ہے کہ جب نواز شریف انسداد کرپشن کی عدالت میں مقدمے کا سامنا کر رہے تھے اس وقت بھی ان کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ اس قسم کے اقدامات نہ صرف سیاسی ماحول میں کڑواہٹ گھول دیں گے بلکہ انتخابات اور جمہوری منتقلی پر برے اثرات مرتب کریں گے۔
یہ مضمون 11 جولائی 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔