گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کھائے
گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کھائے
میں نے جب کارل سیگن کی کتاب ’کوسموس‘ کا اردو ترجمہ پڑھا تو اندازہ ہوا کہ یہ کائنات اور اس کا یہ سیارہ ’دنیا‘ اپنے اندر گوناگونیت رکھتا ہے، ارتقا کی نہ جانے کتنی منزلیں طے کرچکا ہے۔ ہمارے آبا ؤ اجداد کہ جن پر سے وہ ارتقائی زمانے گزرے، اُن کی تکالیف اور درد کو وہ ہی بہتر جانتے ہوں گے کیونکہ ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمیں بہت کچھ بنا بنایا ہی حاصل ہوگیا۔ جہاں ہمیں ورثے میں بہت کچھ ملا وہیں ہم نے گنوایا بھی بہت کچھ ہے، ظاہر ہے ہم انسان جو ٹھہرے! سہل پسندی اور آگے بڑھنے کا جوش ہمارے رگوں میں بہتا ہے۔
کھلی کھلی دھوپ تھی، میں ہالیجی جھیل کا ایک پورا چکر لگا کر شمال کی طرف ایک گھنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ سامنے موجود گھنے پیڑ کے نیچے چائے کی ہوٹل بنی ہوئی تھی، وہاں قرب و جوار کے چند لوگ بیٹھے تھے۔ لکڑی کی دھیمی آنچ اور دھویں پر چائے پک رہی تھی، چونکہ ہم شہری بابو ہیں لہٰذا چائے کو بھی اسپیشل ہونا لازم تھا۔ اسپیشل چائے کا میٹھا اور گرم محلول حلق میں اُتارنے کے بعد میں نے جُنگ شاہی جانے کے لیے راستہ پوچھا۔
’جنگ شاہی جائیں گے، کیوں؟‘ ہوٹل پر بیٹھے ہوئے ایک 60 یا 70 برس کے بابے نے سوال کیا۔
’بس ایسے ہی۔ سُنا ہے وہاں کا ریلوے اسٹیشن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘۔
’ہاں اچھا ہے، مگر اب تو ویران ہوچکا ہے۔ اگر وہاں جا رہے ہیں تو وہاں کے ’بالو شاہی‘ ضرور کھائیے گا، بہت ہی ذائقہ دار ہوتی ہیں، اور جنگشاہی کی درگاہ پر بھی حاضری دیجیے گا۔‘ بوڑھے بابا نے سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرا، ڈائی کی ہوئی سیاہ مُونچھوں کو تاؤ دیا اور پھر سر پر بندھی ہوئی پگڑی کو کھول کر نئے سرے سے سر پر باندھنے لگا۔
پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں سے نکلے تو مئی کی تیز دھوپ آنکھوں کو چبھنے لگی تھی۔ اگر آپ جنوبی سندھ میں جولائی یا اگست کے مہینوں میں جائیں گے تو سمندر نزدیک ہونے کی وجہ سے سفید و سیاہ بادل مغرب سے مشرق کی طرف جاتے ہوئے پائیں گے، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت کا احساس نہیں ہوتا البتہ اپریل اور مئی میں آسمان پر بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہم جُنگ شاہی کے لیے نکلے تو باقاعدہ کوئی سڑک یا راستہ نہیں تھا، کہیں کہیں چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور جہاں پہاڑیاں نہیں تھیں وہاں بھورے رنگ کی ریت تھی۔ آپ جیسے جیسے شمال کی طرف بڑھیں تو زمین کو اس قدر زرد اور سوگھا پائیں گے کہ جیسے صدیوں سے اس پر کسی بدلی نے برسنے کی عنایت نہیں کی۔
اکا دکا جھاڑیاں نظر آجاتی ہیں۔ ہم جب بھٹکتے اور پوچھتے پاچھتے جنگ شاہی پہنچے جہاں پہاڑیوں کی وجہ سے دھوپ کی تمازت اور بڑھ گئی۔ چھوٹے سے شہر کی دکانیں تو کھُلی تھیں مگر بازار پر ویرانی کا راج تھا۔ ہم نے ریلوے کی پٹریاں عبور کرکے پرائمری اسکول سبز علی بروہی پہنچے جہاں کے ہیڈ ماسٹر شوکت علی بروہی ہمارے منتظر تھے۔
ماسٹر صاحب نے بتایا کہ، ’یہاں کی 3 چیزیں بہت مشہور تھیں۔ یہاں کا مصروف ریلوے اسٹیشن، بالوشاہی اور آٹے پیسنے کی شاہی چکیاں، مگر اب ریلوے اسٹیشن کو پالیسیوں اور پکے راستوں نے لوٹ لیا، جس کی وجہ سے بیچاری مصروفیت روٹھ کر کہیں چلی گئی ہے۔ جبکہ چَکی بنانے والے بھی اب انگلیوں پر گننے جتنے چند کاریگر رہ گئے ہیں البتہ بالو شاہی اب بھی مشہور ہیں۔ ‘شوکت علی بروہی نے جب بالوشاہی کا ذکر کیا تو لفظوں میں بالوشاہی کی شیرینی بھی گُھل گئی۔
’تو چکیاں اب بھی یہاں بنتی ہیں؟‘
’ہاں ایک دو چھاپرے رہ گئے ہیں، جہاں اب بھی چکیاں بنتی ہیں، لیکن جب ریلوے اسٹیشن کا عروج تھا اور گاڑیاں یہاں رُکتی تھیں تب یہاں کی بنی ہوئی چکیاں پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جاتی تھیں۔‘
مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ اس جگہ سے ’شاہی‘ کا لفظ کیوں جڑا ہوا ہے؟
کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا مگر میرا زیادہ دھیان بالُوشاہی کی خستگی پر رہا، میٹھی اور ذائقہ دار بالوشاہی کے دور کے بعد ہم ’شاہی چکیاں‘ دیکھنے کے لیے اسکول سے نکل پڑے۔ ہم جب اُس چھاپرے کے نزدیک پہنچے تو پتھروں کو تراشنے کی تیز آواز ہمارے کانوں تک پہنچی۔ ہمارے سامنے مسکیت کا ایک نحیف سا درخت تھا جس کو غالباً بارشوں کے سوا کبھی پانی نہیں ملا، اس درخت کے پاس گھاس پھوس کا ایک خستہ حال چھپر بنا ہوا تھا، سورج کی تیز کرنوں سے بچنے کے لیے چھپر پر پلاسٹک کے ٹکڑے بھی رکھے گئے تھے، چھپر کے گرد دیواریں نہیں تھیں اس لیے شریر ہواؤں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ چھپر کے نیچے چند سنگتراش ہتھوڑی اور تیشوں سے پتھروں کو کاٹ رہے تھے۔ ہر ایک کو پتہ ہے کہ تیشہ کہاں رکھنا ہے اور ہتھوڑی کو کتنی طاقت سے چوٹ لگانی ہے۔ چوٹ لگنے کے ساتھ پتھر کا ٹکڑا اُڑتا اور ساتھ میں ہلکی پتھر کی گرد کا دھواں سا اٹھتا، انہوں نے اپنی ناک کو نہیں ڈھانپا تھا۔