اگرچہ یورپین اسپیس ایجنسی اور ناسا کی جانب سے یہ اعلان ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے ایک اہم سیارے زحل کے چاند انسلیدس پر ایسے پیچیدہ نامیاتی مالیکول دریافت کیے گئے ہیں جہاں زندگی کسی صورت میں پنپ سکتی ہے، تاہم اس اعلان کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں سے لیکر عام افراد تک سب ہی اس نئی تحقیق کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔
لیکن اس تحقیق سے جڑے ایک پاکستانی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا جنہوں نے ڈاکٹر فرینک پوسٹ برگ کے ساتھ مل کر دنیا کے مایہ ناز سائنسدانوں کی ٹیم کی سرکردگی کی، اس ٹیم کا تہلکہ خیز ریسرچ پیپر (مقالہ) حال ہی میں دنیا کے ایک معتبر ترین سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوا ہے۔
آئیے ڈاکٹر نذیر خواجہ سے ملتے ہیں جن کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے دیہاتی علاقے وزیر آباد کی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے۔
انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسپیس سائنسز میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی چلے گئے، اسی دوران وہ خلائی ریسرچ سے متعلق تحقیق کا حصہ بنے اور پھر ناسا کے تاریخی 'کیسینی مشن 'میں خدمات سر انجام دیتے رہے، جو نظام ِ شمسی کے سیارے زحل کی طرف بھیجا گیا تھا۔
ہم نےڈاکٹر نذیر کی کوششوں اور ان کی زندگی سے متعلق معلومات کو اس مختصر انٹرویو میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، جس میں یقینا ان کی زندگی اور کاوشیں نہیں سما سکتیں۔
سوال: دنیا بھر سے سائنس کے شیدائی اس وقت آپ کی نئی تحقیق کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں، کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ اس میں آپ کے لیے سب سے زیادہ متاثر کن کیا چیز رہی؟
ڈاکٹر نذیر: میرے لیے تو اس پورے مشن کی تفصیلات ہی انتہائی متاثر کن رہی ہیں، مگر عوامی حلقوں کی دلچسپی کے لیے میں اسے مختصرا یوں بیان کرنا چاہوں گا کہ ہمیں دوران تحقیق زحل کے چاند انسلیدس پر ایسے پیچیدہ نامیاتی مالیکیول کا سراغ ملا ہے جو سائز میں بھی بڑے ہیں، اگرچہ ماضی میں بھی اس پر تحقیق ہوتی رہی ہے جس کے مطابق کیسینی خلائی گاڑی پر موجود آلات (سی ڈی اے اور آئی این ایم ایس) نے انسلیدس کی سطح پر موجود ایک سمندر میں ایسے ہی چھوٹے نامیاتی مالیکول دریافت کیے تھے، لیکن ہماری تحقیق پہلی دفعہ نامیاتی اجزاء کے بہت بڑے مالیکیولز کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہے، جو زمین سے باہر یا غیر ارضی دنیا پر موجود ہیں۔
سوال: تو کیا اس امر کے امکانات موجود ہیں کہ مستقبل میں انسانی تہذیب کی بقا کے لیے انسلیدس پر انسانی کالونیاں بنائی جا سکتی ہیں؟
ڈاکٹر نذیر: پہلی بات تو یہ ہے کہ خلاء میں انسان کا بسیرا، یا کالونیاں بنانا عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر کسی اور سیارے پر قیام کے حوالے سے سمجھنا چاہیے، چونکہ سیارہ زحل سورج سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہے اوراس کی سطح کا درجۂ حرارت بھی تقریبا منفی 200 سینٹی گریڈ ڈگری کی حد تک کم ہے، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ انسلیدس پر انسانی کالونیاں بنانا یا مستقبل میں قیام ہر گز ممکن نہیں ہے، جو بڑے اور پیچیدہ نامیاتی مالیکیول ہم نے انسلیدس پر دریافت کئے ہیں وہ جاندار اور بے جان ذرائع دونوں ہی میں معاونت کر سکتے ہیں۔
ابھی تک ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان نامیاتی مالیکیول کا ماخذ کوئی جاندار شے (زندہ حیات )رہی ہوگی، نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسلیدس پر زندگی کے آثار موجود ہیں یا زندگی کسی صورت میں یہاں نمو پا سکتی ہے، ہم نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ یہ پیچیدہ مالیکیولز انسلیدس کے زیریں سمندر کی گہرائی میں موجود ہائیڈرو تھرمل وینٹس سے وجود میں آئے ہیں، اس طرح کی ہائیڈرو تھرمل وینٹس ہمارے سیارے زمین پر موجود سمندروں گہرائی میں بھی موجود ہیں جہاں صرف خوردبینی جاندار پائے جاتے ہیں، لہذا ٰانسلیدس پر دریافت ہونے والے ان مالیکیول کی اصل یا ماخذ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن ان میں زمین سے باہر حیات ( ایسٹرو بائیو لوجیکل ) کے حوالے سے طاقت ضرور موجود ہے۔
سوال: سائنسی اصطلاحات سے ہٹ کر کیا آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ انسیلیدس کو کیوں اتنی اہمیت دی جارہی ہے؟
ڈاکٹر نذیر: دراصل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسلیدس نظام شمسی میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی پنپ سکتی ہے، (سائنس میں ایسی جگہ کو ہیبی ٹیبل زون کہا جاتا ہے) مگر ابھی یہاں زندگی کی کسی بھی صورت میں موجودگی واضح نہیں ہو سکی، ابھی تک ہم انسلیدس کی تہہ میں موجود ایک سمندر پر تحقیق کر کے مختلف ممکنات پر بحث و مباحثے میں مصروف ہیں، جہاں کا درجۂ حرارت تقریبا 90 سینٹی گریڈ ڈگری ہے۔
مجھے علم ہے کہ عام افراد کے لیے ان سائنسی باتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے اس لیے میں اس کی وضاحت یوں کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی مقام پر زندگی کے آغاز اور بعد ازاں پنپنے کے لیے تین علامات کا ہونا لازمی ہے اور سائنسدان جب زمین کے علاوہ کسی بھی دوسرے سیارے یا اس کے چاند پر زندگی کی موجودگی تلاشتے ہیں تو یہی 3 علامات سب سے پہلے ڈھونڈی جاتی ہیں، جن میں نمبر 1 مائع حالت میں پانی، نمبر 2 سورج کی طرح توانائی کا ایک مستقل ماخذ اور نمبر 3 نامیاتی مالیکیول ہیں۔
ہماری اب تک کی تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ زحل کے گرد گردش کرنے والے چاند انسلیدس پر یہ تینوں بنیادی علامات موجود ہیں، اور پیچیدہ نامیاتی مالیکیول سے متعلق ہماری نئی تحقیق نے اس یقین میں مزید اضافہ کیا ہے کہ انسلیدس کے اس سمندر میں مختلف النوع نامیاتی مرکبات وافر مقدار میں موجود ہیں، جو مجموعی طور پر اس امر کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ انسلیدس پر ایک ہیبی ٹیبل (زندگی کے موافق) سمندر موجود ہے، لہذا سائنسدانوں کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوگئی ہے، کیوں کہ یہ زمین سے باہر ہمارے نظام شمسی میں دریافت ہونے والا ایک ایسا مقام ہے جہاں زندگی کی ابتداء یا ارتقاء کے حوالے سے مزید تحقیق کی جاسکتی ہے اور اس تحقیق سے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے مستقبل میں شروع کیے جانے والے دیگر اہم منصوبے 'یورپا کلپر' اور 'جوس'( جیوپیٹرآئیسی مون ایکسپلورر) میں بھی مدد ملے گی جو مشتری کے منجمد چاندوں کی جانب بھیجے جائیں گے اور کیسینی کی طرح وہاں زندگی کے آثار تلاش کریں گے۔
سوال: کیا آپ بناتا پسند کریں گے کہ کیسینی خلائی گاڑی کے ذریعے ہونے والی سب سے اہم دریافت کون سی تھی؟
خلائی تسخیر کی تاریخ میں کیسینی ہائیجنز مشن کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے جو اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک بے نظیر کوشش تھی، 2005 میں کیسینی کے زحل پر پہنچنے کے فورا بعد سائنسدانوں نے اس خلائی گاڑی پر موجود آلات( آن بورڈ) سے دریافت کیا کہ زحل کے چاند انسلیدس کے جنوبی قطب کی جانب پانی کے بخارات اور اور برف کے ذرات (گرینز ) وافر مقدار میں خارج ہورہے ہیں۔
سائنسدانوں کے لیے یہ امر انتہائی حیران کن تھا کہ زمین سے باہر ہمارے نظام شمسی میں ایک ایسا چاند موجود ہے جو جغرافیائی حوالے سے کافی متحرک ہے، برف کے جو ذرات انسلیدس سے خارج ہورہے تھے وہ اس کی سطح سے کئی کلومیٹر اوپر تک جا تے تھے، ان میں سے زیادہ تر ذرات انسلیدس کی سطح پر واپس گر رہے تھے، مگر چند ایک چاند کی کشش ثقل سے فرار ہوکر زحل کے گرد مسلسل برف کے ذرات کا حلقہ بناتے جارہے تھے، زحل کے اس چاند کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی اوپری برف کی موٹی تہہ کے نیچے ایکایک زیریں سمندر موجود ہے جو نمکیات سے بھرا ہوا ہے، جس کا چاند کے چٹانی خول (کرسٹ) سے براہ راست رابطہ ہے، سائنسدانوں کو یہاں متحرک ہائیڈرو تھرمل وینٹس کا سراغ ملا، جو زمین پر موجود سمندروں کے 'لوسٹ سٹی' ہائیڈرو تھرمل وینٹس سے مشابہہ ہیں۔