نقطہ نظر

اَپر کلاس امیدواروں کے مڈل کلاس اثاثے

لگتا ہے کہ علیم خان کو کوئی قرضہ نہیں دیتا ہوگا چنانچہ انہوں نے کہا دفع کرو، میں اپنی کمپنی بنا کر اس سے قرض لے لوں گا۔

انتخابات میں ایک بڑی خرابی ہے۔ جو لوگ خوش شکل نظر آنے کے لیے مہاسے اور خود کو کم عمر باور کروانے کے لیے پوتیاں پوتے اور نواسیاں نواسے تک ظاہر نہیں ہونے دیتے، انہیں بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے پڑتے ہیں۔

یوں موسم گرما میں جلد پر نمودار ہوتے گرمی دانوں کی طرح چناؤ کی رُت سیاست دانوں کے جھانسے، دلاسے اور اثاثے سامنے آنے کا موسم ہے۔ یہ اثاثے سامنے آکر عوام کو حیران کر جاتے ہیں۔ اس حیرانی کا تعلق انتخابی امیدواروں کے کروڑ پتی اور ارب پتی ہونے سے نہیں، وہ تو ہر غریب آدمی جانتا ہے کہ الیکشن ایسے ہی پتی لڑسکتے ہیں، مفلس تو بس مجبورپتی ہوتے ہیں جو پتنی سے بھی لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ حیرت کا سبب بعض امیدواروں کے فارم کے ساتھ جمع کردہ حلف ناموں میں دی گئی کچھ معلومات اور اعداد و شمار ہیں۔ چلیے ہم یہ حیرانی دور کیے دیتے ہیں۔

بھئی شہباز شریف کے مری روڈ پر واقع 9 مرلے کے گھر کی قیمت صرف 34 ہزار اور اسی مقام پر دوسرے گھر کی قیمت 27 ہزار ہے تو حیرت کیسی، ہوسکتا ہے ان مکانوں میں جن ہوں اور جن مکانوں میں جن ہوں انہیں کوئی لینے کو تیار نہیں ہوتا، اس لیے قیمت گرتی جاتی ہے۔ ویسے تو یہ مکان خالی رہتے ہی ہوں گے، لیکن جب شریف خاندان سعودی عرب جا بسا تھا تو برسوں بند رہنے والے ان مکانوں میں جن آبسیں ہوں گے۔

ہمیں یقین ہے کہ ان مکانات کی بالکل صحیح قیمت بتائی گئی ہے، اگر یہ جھوٹ ہوتا تو 38 لاکھ روپے کے مقروض شہباز شریف کوئی ایک مکان بیچ کر قرض نہ چُکا دیتے؟ ان کے مقروض ہونے پر بھی حیران نہ ہوں، جس کے کئی گھر اور دو گھر والیاں ہوں، وہ بے چارہ قسمت کا مارا اتنے گھر چلانے کے لیے قرضے نہ لیا کرے تو تم ہی بتاؤ کیا کرے۔

پڑھیے: مظفر گڑھ کا آزاد امیدوار 4 کھرب 3 ارب روپے کے اثاثوں کا مالک

عمران خان کے پاس زیورات نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، ان کے گھر زیور آتے جاتے رہے، مستقل قیام نہیں کر پائے، گویا ”اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔“ لگتا ہے ان کے آنگن میں نیا سورج زیور کی چمکتی دھوپ کے بغیر اُترا ہے۔

اب اگر عمران خان کے پاس زیورات کی طرح گاڑی بھی نہیں یعنی وہ پیدل ہیں، تو کیسی حیرانی، ان کے پاس جہانگیر ترین تو ہیں نا۔ بہ ہر حال گاڑی نہ ہونے پر ان کے حامی پریشان نہ ہوں ”جیپ گروپ“ منزل تک پہنچنے کا مسئلہ حل کردے گا۔ یوں بھی حلف نامے کے مطابق جس طرح ان کے دورے اسپانسرڈ ہوتے ہیں، اسی طرح ان کی سواریاں اور سرگرمیاں بھی اسپانسر حاصل کرلیتی ہیں۔

اثاثوں کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ خان صاحب کے پاس 2 لاکھ روپے مالیت کے جانور ہیں، ان جانوروں کے نام نہیں بتائے گئے۔ ہم بس قیاس ہی کرسکتے ہیں کہ ”شیرو“ کے علاوہ اس فہرست میں رٹو طوطے اور سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں شامل ہیں۔

آصف زرداری بڑے دیالو ہیں، انھوں نے پورے 35 لاکھ روپے اُدھار دے دیے زرداری گروپ کو۔ عمران خان کے مقابلے میں زرداری صاحب کے پاس 6 گاڑیاں ہیں، وہ بھی لگژری۔ دراصل انھوں نے جو اُدھار دے رکھا ہے اس کی وصولی کے لیے انہیں روز بیسیوں چکر لگانا پڑتے ہیں۔ اتنے چکر ایک گاڑی پر لگائے جائیں تو اس کے ٹائر صبح سے شام تک گِھس جائیں گے، اسی لیے 6 گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔

انہیں گھوڑوں کا شوق ہے، خریدنے اور دوڑانے ہی کا نہیں پالنے کا بھی۔ ان کے گھوڑے دوڑ جیت کر ہی رہتے ہیں۔ ان کے گھوڑے پالنے کی بابت کہنے والے کہتے ہیں کہ انگریزوں نے بعض لوگوں کو اراضی اس طرح دی تھی کہ گھوڑا دوڑاتے چلے جاؤ، جہاں گھوڑا رُک جائے وہاں تک زمین تمہاری، زرداری صاحب بھی کسی ایسے ہی موقع کے انتظار میں ہیں، اگر ایسا موقع آیا تو جہاں ایک گھوڑا رُکے گا وہ دوسرا دوڑا دیں گے۔ ہمارے خیال میں گھوڑے انھوں نے صرف اس لیے پالے ہوئے ہیں کہ اگر 6 گاڑیوں کے ٹائر ناکارہ ہوجائیں تو گھوڑے پر بیٹھ کر قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے جائیں۔

امیروں کے بچے منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہوتے ہیں، باقی چمچے یہ سونے کا چمچا دیکھ کر ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ بلاول بھٹو بھی ان ہی بچوں میں شامل ہیں۔ ان کے منہ میں طلائی چمچا بھی دیگ والا تھا۔ سو ان کے اثاثے اپنے والد سے کہیں زیادہ ہیں۔ زیادہ تر اثاثے انہیں اپنے بڑوں سے تحفے میں ملے ہیں اور تحفے دینے والوں میں والد، والدہ اور دادا حاکم علی زرداری کے ساتھ بلاول کی پیدائش سے کوئی 9 سال قبل پھانسی چڑھ جانے والے نانا ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں۔

پس سو ثابت ہوا کہ بھٹو نہ صرف زندہ ہے بلکہ تحفے بھی دیتا ہے۔ ان کے ایک اثاثے بلاول ہاؤس کی قیمت فقط 30 لاکھ روپے ہے۔ بھیا رہتے تو ہم کراچی میں ہیں مگر پوری بے خبری کے ساتھ، اس لیے ہمیں خبر نہیں کہ کس علاقے میں جائیداد کی کیا قیمت چل رہی ہے، ہمیں لگتا ہے کہ بلاول ہاؤس لیاری کے چیل چوک یا نیو کراچی کے انڈا موڑ کے اطراف واقع کسی خستہ حال عمارت کا فلیٹ ہے۔

ہمیں تو کسی رشتے دار کی توند نکل آنے پر دُکھی دل کے ساتھ دی جانے والی پینٹیں ہی بہ طور تحفہ ملتی ہیں، اسی طرح 500 روپے قرض چاہیے ہو تو پانچ ہزار مانگنا پڑتے ہیں اور انکار کی صورت میں ”چلو پھر 500 ہی دے دو“ کہہ کر ریلیف دیتے اور اُدھار لیتے ہیں، مگر سیاست دانوں کے رشتوں کو سلام کہ وہ جو کماتے ہیں تحفوں اور قرضوں پر لُٹا دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: جمشید دستی کنگال امیدوار،موٹرسائیکل کے بھی مالک نہیں

بی بی مریم نواز ہی کو دیکھیں، انہیں 4 کروڑ 92 لاکھ 77 ہزار روپے کے تحائف ملے۔ اتنی مالیت کے تحائف تو عام آدمی کو چار شادیاں کر کے اور 70 سال گرہیں منا کر مجموعی طور پر بھی نہیں ملتے۔ مگر صاحب یہ خاص لوگ ہیں۔ عام آدمی اگر بھائی سے ہزار روپے قرض مانگ لے تو قرض مانگنے والا فوراً بھائی سے بُرائی بن جاتا ہے، لیکن خاص لوگوں کے بھائی ایسے نہیں ہوتے، جیسے مریم نواز کے برادر حسن نواز جو اپنی بہن کو 2 کروڑ 89 لاکھ روپے دے کر بھول چکے ہیں۔ کاش ہم سب کو ایسے بھائی میسر ہوں، لیکن کیا کریں، حالی نے کہا تھا،”دوست یاں کم ہیں اور بھائی بہت“ اب یوں کہنا چاہیے ”ہیں حَسن اِکّا دُکّا بھائی بہت۔“

مولانا فضل الرحمٰن کا بینک بلینس صرف 20 لاکھ ہے، تو پتا چلا کہ گیس کے کاروبار میں برکت نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ رقم بھی مولانا نے ”کشمیر کمیٹیاں“ ڈال کر جمع کی ہوں گی۔

حمزہ شہباز نے اثاثوں کے ساتھ دوسری بیگم بھی ظاہر کی ہیں۔ حلف نامے کے مطابق ان کے پاس گاڑی نہیں، اگر ”میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں“ کی بات درست ہے تو اس حساب سے وہ خود 2 گاڑیوں کے پہیے ہیں، اب جو خود پہیا ہو اسے گاڑی کی کیا ضرورت!

ہائے بے چارے طلال چوہدری، نہ گھر نہ ذاتی گاڑی، بینک سے 50 لاکھ کا قرض لے کر کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ 4 کینال کے جس گھر میں رہتے ہیں وہ اہلیہ کے نام ہے، جو ایک بوتیک کی مالک ہیں۔ یہ تو اچھے خاصے بے حال چوہدری ہیں۔ اِن حالات میں چوہدری صاحب کے لیے بہتر ہے کہ شریف خاندان سے زیادہ اہلیہ سے بنا کر رکھیں۔

مسلم لیگ ن کے راہ نماؤں کے حلف نامے دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ ان معصوموں پر خواہ مخواہ لوٹ کھسوٹ کے الزامات لگائے گئے، یہ غریب تو قرضے لے لے کر گھر چلاتے رہے اور ملک بھی۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے حلف نامے میں دو بیویاں اور دو کروڑ کا قرضہ ظاہر کیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ مقروض ہونے کے ساتھ کتنے انصاف پسند ہیں۔

رانا ثناءاللہ 2 کروڑ 90 لاکھ 50 ہزار کے مقروض ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان پر اتنا قرضہ اس لیے چڑھا کہ مونچھیں ترشوانے کے لیے دوستوں سے سو پچاس روپے لیتے، اور پنجاب کے وزیرِ داخلہ کے طور پر امن وامان قائم کرنے میں اتنے مصروف تھے کہ نائی کے پاس جانے کا موقع ہی نہ ملتا اور پیسے سبزی دال لانے میں خرچ ہوجاتے، یوں یہ چھوٹے چھوٹے قرضے جمع ہوکر کوئی 3 کروڑ تک جاپہنچے۔ اُف خدایا! یہ روایت لکھتے ہوئے قسم سے ہماری آنکھیں نم ہوگئیں۔ عابد شیر علی پر تو پورے 5 کروڑ کا قرضہ ہے۔ وہ جائیداد بیچ کر یہ قرض چکا سکتے تھے، لیکن کیا کریں، اسلام آباد میں بنی ان کی کوٹھی کی قیمت 60 لاکھ 75 ہزار روپے سے بڑھی ہی نہیں۔

پرویزمشرف نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا پیشہ فری لانس لیکچر دینا ہے، ہمارے خیال میں جس طرح لوگ قوالوں پر پیسے لُٹاتے ہیں اسی طرح مشرف صاحب کا لیکچر سُننے والے اُن پر ڈالر نچھاور کرتے ہیں، چناں چہ اس رقم سے انہوں نے جو اثاثے بنائے وہ یہ ہیں: کراچی میں جائیداد کی مالیت 3 کروڑ 42 لاکھ 92 ہزار روپے، چک شہزاد کے فارم ہاؤس کی قیمت 2 کروڑ 37 لاکھ روپے، کراچی کے ڈیفنس کی زمزمہ اسٹریٹ کے مکان کی قیمت 50 لاکھ روپے، دبئی میں 9 کروڑ کا اپارٹمنٹ، 2 کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کی گاڑیاں، مختلف بینک اکاؤنٹس میں 2 کروڑ 12 لاکھ روپے۔ ہوسکتا ہے یہ ساری اُس لیکچر کی کمائی ہو جو انہوں نے 13 اکتوبر 1999 کی رات قوم کو پلایا تھا۔ ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد ہیں، اس لیے اہلیہ کے اکاؤنٹس سے کام چلا رہے ہیں۔ جس طرح بچے شام کو امی سے ”چیز“ کے پیسے مانگتے ہیں، سنا ہے اسی طرح سابق صدر اپنی بیگم سے سگریٹ کے لیے پیسے مانگتے پائے جاتے ہیں۔

جانیے: سیف اللہ خاندان، پاکستان کا سب سے بڑا آف شور اثاثوں کا مالک

پاکستان تحریک انصاف کے عبدالعلیم خان کا پاکستان میں صرف 90 ہزار روپے کا کاروبار ہے۔ یقیناً انہوں نے نئے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے سرمایہ روک رکھا ہے۔ نیا پاکستان بنتے ہی وہ ”لُٹادے ٹھکانے لگادے اسے“ کا منظر پیش کر رہے ہوں گے۔ ان کے اثاثوں کی مالیت 82 کروڑ 91 لاکھ روپے سے زائد ہے، اور وہ ایک ارب روپے کے مقروض ہیں۔ انہوں نے اپنی ہی بنائی ہوئی کمپنی سے 69 کروڑ 97 لاکھ روپے کا قرض لے رکھا ہے۔

لگتا یوں ہے کہ انہیں کوئی قرضہ نہیں دیتا ہوگا، مایوس ہوکر انہوں نے کہا دفع کرو، میں اپنی کمپنی بناکر اس سے قرض لے لوں گا۔ اسے کہتے ہیں خودمختاری اور خود داری۔ شاید باقی کا قرضہ بھی انہوں نے اپنی ہی کسی کمپنی سے لیا ہے۔ اب وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر تقاضا کرتے ہوں گے،”اوئے، میرے پہیے واپس کر“ پھر جواب دیتے ہوں گے،”او یار، اس مہینے کڑکی چل رہی ہے، اگلے مہینے دے دوں گا“، اللہ اللہ خیر سَلّا۔

ڈاکٹرفاروق ستار کی لینڈ کروزر کی قیمت بس 5 لاکھ روپے ہے، غالباً انہوں نے کباڑیے سے کسی ہڑتال میں جلنے والی لینڈکروزر خریدی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لینڈ کروزر کے کھوکھے میں ”مہران“ کا انجن فِٹ ہو۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونا تو سب پر عیاں ہے، حلف نامے نے ان کے وکیل ہونے کا انکشاف بھی کردیا۔ ویسے تو الطاف بھائی کا دفاع کرتے کرتے ایم کیوایم کا ہر راہ نما وکیل دفاع ہوچکا ہے، لیکن خالد مقبول نے باقاعدہ ایل ایل بی کی سند لی ہے۔ شاید ڈاکٹرعشرت العباد اور ڈاکٹرفاروق ستار کے حال اور ڈاکٹر عاصم کے ماجرے نے انہیں پیشہ بدلنے پر مجبور کردیا۔

پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی کے اس انکشاف نے ہمیں تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ ان کے پاس موجود 50 تولا سونے کی قیمت صرف ساڑھے 3 لاکھ روپے ہے۔ ہم عارف صاحب سے عرض کریں گے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، اپنا سونا ایک بار سنار سے چیک ضرور کروالیں، اس کے لیے انہیں بازار جانے کی ضرورت نہیں، بس سونے کے بیوپار اور فاروق ستار کے حوالے سے شہرت یافتہ کامران ٹیسوری کو تحریک انصاف میں آنے کی دعوت دے دیں۔

عارف علوی کا متمول طبقے کے علاقے میں بنا مکان بھی بس 11 لاکھ کا ہے۔ اب اس پر ہم کیا کہیں۔ وہ دانتوں کے ڈاکٹر ہیں، سو جانتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔