عدالتی کیموتھراپی حل نہیں، مگر ضروری ہے
سپریم کورٹ جب بھی انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے آئین کی شق 184 (3) کے تحت اپنی غیر معمولی قوت کا استعمال کرتی ہے تو لوگ اکثر و بیشتر حیران ہوجاتے ہیں؛ یا تو انہیں مثبت حیرت ہوتی ہے یا پھر جھٹکا لگتا ہے۔
اس لیے ہمیں جس چیز کا تجزیہ کرنا چاہیے وہ یہ کہ: کیا ہو رہا ہے اور اس کی وجوہات اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
یہ ماضی کا نیا جنم ہے، البتہ فرق کے ساتھ: پاکستان کی عدالتی تاریخ میں زمین پر موجود ہر مسئلے کو اعلیٰ عدالتوں میں لے کر جانا، یا پھر سماجی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو عدالت کی نذر کر دینے کی تاریخ بہت پرانی ہے، اور یہ کام 1988ء میں شروع ہوا۔
مگر افتخار چوہدری کی عدالت نے اس عدالتی سرگرمی کو دو بنیادی طرح سے تیز رفتار کیا۔ پہلا، 2007ء سے اب تک عدالتی آزادی میں معیاری اعتبار سے اضافہ ہوا ہے چنانچہ اعلیٰ عدالتوں میں زیادہ پیچیدہ ریاستی اور سماجی مسائل کا فیصلہ کرنے اور پاکستان میں مختلف اشرافیاؤں پر سوال اٹھانے کا اعتماد زیادہ بڑھا ہے۔
دوسرا، 2007ء سے نہ صرف ہائی کورٹس بلکہ براہِ راست سپریم کورٹ میں بھی از خود نوٹسوں اور براہِ راست آئینی درخواستوں کے ذریعے انسانی حقوق اور مفادِ عامہ سے متعلق مقدمہ بازی میں اضافہ ہوا ہے۔
پڑھیے: نواز شریف کو عدلیہ سے کیا مسئلہ ہے؟
ثاقب نثار کی عدالت نے افتخار چوہدری کی عدالتوں کے ان ماضی کو رجحانات کو از سرِ نو جلا بخشی ہے جس میں انسانی حقوق سے متعلق مقدمات اور دیگر مسائل شق 184 (3) کے تحت ہائی کورٹس کے بجائے براہِ راست سپریم کورٹ میں حل ہوتے ہیں۔
مگر موجودہ سپریم کورٹ نے ماضی کے اس رجحانات کو کچھ فرق کے ساتھ نیا جنم دیا ہے۔
سب سے پہلے، پاکستان کی حالیہ عدالتی تاریخ میں دو ایسے گروہ ہیں جنہیں عدالتی احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، یعنی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بالخصوص انٹیلیجینس ادارے، اور شریف خاندان۔
یہ وہ اچھوت گروہ تھے جنہیں چھونا کسی عدالت کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان دونوں کے ہی معاملات میں یہ روایت توڑی گئی ہے۔ افتخار چوہدری کی عدالت پر الزامات تھے کہ انہوں نے شریف خاندان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا مگر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کئی اہم مقدمات کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب، جہاں ثاقب نثار کی عدالت پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نرم رویے کا الزام ہے، تو وہیں اس نے شریف خاندان کے خلاف کئی اہم مقدمات کا فیصلہ کیا ہے۔
ثاقب نثار کی عدالت نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے خلاف برق رفتار ایکشن لیا جو کہ مبینہ طور پر انٹیلیجینس اداروں کے حمایت یافتہ ہے، اور اس کے علاوہ انہوں نے لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اٹھایا۔ یہ اس بات کے اشارے ہیں کہ وہ محتاط انداز میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو قابلِ احتساب ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
دوسرا یہ کہ اہلیت اور نااہلی کے طریقہ کار کے ذریعے عدالتی انجینیئرڈ جمہوریت کا مرحلہ افتخار چوہدری کی عدالت نے شروع کیا تھا مگر موجودہ سپریم کورٹ نے اسے مزید تیز تر کرتے ہوئے اس کی جڑیں مضبوط کردی ہیں۔ 2012ء کے بعد فرشتہ صفت ایماندار سیاستدانوں پر مشتمل ایک صاف ستھری جمہوریت تیار کرنے کے عدالتی تجربے نے جمہوری اور سیاسی قیادت کے مسلسل اور سخت عدالتی جائزے کو جنم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو عدالتی ووٹ عوام کے ووٹ کے مدِ مقابل ہے۔
تیسرا، افتخار چوہدری کی عدالت کی توجہ کا مرکز سیاسی مقدمات، بالخصوص کرپشن مقدمات تھے، جبکہ ثاقب نثار کی عدالت کی توجہ کا مرکز سماجی مسائل پر ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو توجہ عمومی مفادِ عامہ کے مقدمات سے ہٹ کر سماجی دلچسپی کے مخصوص مقدمات کی جانب ہے جن میں صحت، پانی اور تعلیم سرِ فہرست ہیں۔
طاقت، غصہ، انقلاب
عدلیہ اور فوج کے گٹھ جوڑ، یا پھر عدالت کی شہرت پسندی، یا پھر 184 (3) کی مبینہ غلط تشریح کے بارے میں سازشی مفروضے سپریم کورٹ کی غیر معمولی قوت کی تشریح نہیں کرسکتے۔ 3 تاریخی اور انتظامی وجوہات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔
پہلا، چیف جسٹس ثاقب نثار کو ایسی سپریم کورٹ ورثے میں ملی جس کی طاقت اور ساکھ کو انور ظہیر جمالی کی عدالت کے گرد گھوم رہے تنازعات کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت عدلیہ طاقت کے اعتبار سے 2007ء سے اب تک کی کم ترین سطح پر تھی۔ عوامی قوت کے بغیر عدلیہ ریاست کا ایک اور بے اختیار ادارہ ہے۔ عدلیہ عوامی مفاد سے متعلق اور میڈیا پر آنے والے مسائل کو اٹھا کر عوامی قوت حاصل کرسکتی ہے۔ ثاقب نثار کی عدالت کے بارے میں نظریہ ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی قوت بحال کرنے کے لیے جمہوریت کی سیاسی انجینیئرنگ، سماجی دلچسپی کے مقدمات اور مختلف اشرافیاؤں کو چیلنج کرکے بحال کی ہے، جو کہ انہوں نے بنیادی طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کو سپریم کورٹ آف پیپل آف پاکستان میں تبدیل کرکے حاصل کی ہے۔
دوسرا، چیف جسٹس کے کمرہ عدالت میں عدالتی کارروائی دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ عدلیہ میں پاکستان کی خود کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے میں نااہلی کے حوالے سے شدید اور مسلسل غصہ موجود ہے۔ یہ غصے کا اظہار اکثر متنازع عوامی تبصروں اور جارحانہ عدالتی سرگرمی کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایوب نے ریاست اور معاشرے کی تجدیدِ نو کے لیے فوجی مطلق العنانیت کا سہارا لیا، بھٹو نے سیاسی مطلق العنانیت کا، اور چیف جسٹس ثاقب نثار اب قانونی مطلق العنانیت کا سہارا لے رہے ہیں۔ آئینیت اور عدالتی سرگرمی اب پاکستانی قوم پرستی میں ایک نیا روپ لیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں، اور سپریم کورٹ کی کارروائی ’عدالتی حکومت‘ کے حالات کے مشابہہ ہوچکی ہے۔
تیسرا، عدالتی غصہ اس یقین کے ساتھ منسلک ہے کہ ترقی اور جدت کی عدم موجودگی کا حل قانون کی حکمرانی ہے۔ اس کی وجہ سے ’عدالتی اقدامات کے ذریعے انقلاب‘ کے نظریے نے جنم لیا ہے۔
پڑھیے: انتظامیہ ناکام ہوگی تو عدالت ضرور سوال کرے گی!
امید، افراتفری، مایوسی
ریاستی ناکامی کا کینسر، عوامی فنڈز اور اداروں پر اشرافیہ کا قبضہ اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں بالخصوص انٹیلیجینس اداروں کے ہاتھوں، پاکستان میں اس قدر جڑ پکڑ چکے ہیں کہ نہ ہی اچھی عدالتی نیت، نہ ہی 24 گھنٹے ساتوں دن کام کرنے سے اس طرح کے انتظامی مسائل حل ہوں گے۔
عدالتی غصہ اور سرگرمی اس طرح کے پرانے اور پھیلتے ہوئے کینسر کے لیے صرف عدالتی کیموتھراپی کا کام کرسکتی ہے۔ اس لیے عدالتی کیموتھراپی کے استعمال کے 3 نتائج ہوتے ہیں: پہلا، اس سے لوگوں میں طویل مدتی مسائل کے حل کی امید پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا، جب ان گنت شعبوں میں عدالتی مداخلت ہوتی ہے تو اس سے ان لامتناہی مداخلتوں، کئی مسائل پر عدالتی مہارت اور مسائل کے حل کی عدم موجودگی، اور شق 184 (3) کے تحت کارروائی میں فریقین کو شفاف ٹرائل کا حق نہ ملنے کی وجہ سے افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ تیسرا، بھلے ہی کئی لوگ سپریم کورٹ کے دیے گئے زبردست ریلیف سے بہرہ مند ہوں گے، مگر پھر بھی ایک بڑی اکثریت اس سے بے بہرہ رہ جائے گی، چنانچہ اس سے مسلسل مایوسی جنم لے گی۔
چنانچہ کیموتھراپی کی طرح عدالتی سرگرمی ضروری بھی ہے، اس کے بڑے منفی نتائج بھی ہیں، اور زیادہ تر معاملات میں یہ حل کے بجائے آرام فراہم کرسکتی ہے۔
مگر عدالتی کیموتھراپی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، اس لیے نہیں کہ یہ زیادہ تر مسئلے حل کرسکتی ہے، بلکہ طبی کیموتھراپی کی طرح یہ امید کو زندہ رکھتی ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔
لکھاری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔