نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت
شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا۔
اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات پر مریم نواز کو والد کے اس جرم میں ساتھ دینے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق تحقیقات میں نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر علیحدہ ایک، ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس طرح مجموعی طور پر نواز شریف کو 11 اور مریم کو 8 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
احتساب عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مریم نواز اور ان کے خاوند کیپٹن (ر) محمد صفدر الیکشن 2018 میں حصہ نہیں لے سکیں گے جبکہ کیپٹن (ر) محمد صفدر کے پاس احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کرنے کی صورت میں الیکشن میں لڑنے کا ایک آپشن موجود ہے۔
احتساب عدالت کے 174 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 10 سال کے لیے عوامی عہدے کیلئے نااہل بھی قرار دیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے شواہد ثابت کرنے میں ناکام رہی، اس لیے ملزمان کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 اے فور یعنی کرپشن کے پیسے سے جائیداد بنانے کے الزام سے بری کردیا گیا۔
ملزمان کو آمدن سے زائد اور بےنامی دار کے نام پر جائیداد بنانے پر نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 اے فائیو کے تحت سزا سنائی گئی۔
تحریری فیصلے کے مطابق والد کے اثاثے چھپانے کی سازش میں مریم نواز کا مرکزی کردار رہا اور انہوں نے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی۔
عدالت نے ریفرنس میں اشتہاری ملزم قرار پانے والے حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرکے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس، سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز لیکس کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنانے سے قبل فریقین کے وکلاء کو روسٹرم پر بلایا اور فیصلہ سنانا شروع کیا۔
5 بار فیصلہ مؤخر
اس سے قبل احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا وقت 5 مرتبہ مؤخر کیا گیا، پہلے فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنانا تھا، تاہم نماز جمعہ کے باعث اسے ڈھائی بجے کردیا گیا تھا، جو مزید بڑھا کر 3 بجے کیا گیا، تاہم اسے پھر آدھے گھنٹے آگے بڑھا کر ساڑھے 3 بجے اور بعد ازاں ساڑھے 4 بجے کیا گیا تھا۔
قبل ازیں احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 7 روز تک مؤخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی تھی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
وقفے کے بعد مذکورہ درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت نے نواز شریف کی جانب سے فیصلہ 7 روز تک مؤخر کرنے کی دائر درخواست مسترد کردی۔
احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کچھ ہی دیر میں سنائے جانے کا امکان ہے۔
ادھر ایون فیلڈ ریفرنس کے متوقع فیصلے کے موقع پر احتساب عدالت کے اطراف میں سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو عدالت میں آنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ شہری انتظامیہ نے اسلام آباد میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی تھی۔
احتساب عدالت کے اطراف اور اندر سخت سیکیورٹی کے لیے رینجرز اور کمانڈوز کے خصوصی دستے بھی تعینات کیے گئے تھے جبکہ اس دوران صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
احتساب عدالت کے فیصلے پر رد عمل
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ ’پاکستان میں 70 سال سے سرگرم نادیدہ قووتوں کے سامنے ڈٹ جانے کی یہ سزا بہت چھوٹی ہے، آج ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور بلند ہو گیا‘۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ تاریخ میں سیاہ حروف میں یاد رکھا جائے گا، پورے مقدمے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ نیب عدالت نے اپنا فیصلہ تو سنادیا مگر25 جولائی کو ایک عوامی عدالت بھی لگنے والی ہے، انشا اللہ عوامی فیصلہ ثابت کرے گا کہ عوامی عدالت کا فیصلہ ٹھیک اور نیب عدالت کے مقابلے میں عوامی عدالت کا فیصلہ گونجے گا، میں پاکستان کے کونے کونے میں جائوں گا اور جاکر اس زیادتی اور ناانصافی سے عوام کو آگاہ کروں گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انشا اللہ 25 جولائی کو فجر کی نماز پڑھ کر پاکستان کا ہر بزرگ اور نوجوان اپنے ووٹ سے ہماری بے گناہی کی گواہی دے گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے خلاف ہر آئینی و قانونی راستہ اختیار کریں گے، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ملک بھر میں جلسے کریں گے اور ان جلسوں کو پرامن احتجاج کا ذریعہ بھی بنائیں گے تاکہ پوری دنیا کو پتا چلے کہ کسی کے لیے احتساب کے پیمانے کچھ اور کسی کے لیے کچھ اور ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق احتساب عدالت کے فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ میں یہ دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کمزور فیصلہ ہے اور اس طرح کے فیصلے دے کر ادارے بات کرنے سے کترائیں گے۔
احتساب عدالت کے باہر ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف ڈرنے یا جھکنے والے نہیں اور وہ 25 جولائی سے پہلے پاکستان آئیں گے، وہ جنرل مشرف کی طرح چھپیں گے نہیں بلکہ ہر چیز کا سامنا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے جو پیشیاں بھگتیں وہ آئین و قانون کی پاسداری تھی، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے مسلم لیگ(ن) کو کمزور کرسکتے ہیں، انہیں میں یہ پیغام دیتا ہوں کہ ایسے فیصلے پارٹی کو مضبوط کریں گے اور کارکنوں کے عزم کو پختہ کریں گے۔
بعد ازاں ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وکیل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز احتساب عدالت کے فیصلے پر 10 دن میں اپیل کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو اگر وطن واپسی پر گرفتار کرنا چاہیں تو کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ واپس نہیں آئے تو انہیں دیگر طریقوں سے بلانے کی کوشش کی جائے گی۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 7 روز تک مؤخر کرنے کی درخواست
اس سے قبل اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آج (بروز جمعہ) سنایا جائے گا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے 3 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا اور اسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں اس فیصلے کو چند روز کے لیے مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ فیصلے کے موقع پر عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے لہٰذا چند روز کے لیے اس فیصلے کو مؤخر کیا جائے۔
واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کئی مواقع پر دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ مجموعی طور پر احتساب عدالت میں 100 سے زائد مرتبہ پیش ہوچکے ہیں جبکہ 9 ماہ سے زائد اس کیس کی سماعت جاری رہی۔
نواز شریف کیلئے یہ سب نیا نہیں، وہ پہلے بھی جیل بھگت چکے ہیں، مریم نواز
عدالتی فیصلے سے قبل مریم نواز نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے شیرو یاد رکھنا، فیصلہ جو بھی آئے گھبرانا نہیں، نواز شریف کے لیے یہ سب نیا نہیں ہے وہ پہلے بھی نااہلی، عمر قید، جیل اور جلا وطنی بھگت چکے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ کوئی لیڈر ہے جو آپ کی خاطر،وطن عزیز کی خاطر، آپ کے ووٹ کی عزت کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہے اور کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ تو 25 جولائی کو ہونا ہے، ان سازشیوں اور مہروں کے چہرے اس دن یاد رکھنا، انشاءالّلہ فتح آپ کی منتظر ہے۔
فیصلے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، وکیل مریم نواز
ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے محفوظ کیا جانے والا فیصلہ سنائے جانے سے متعلق مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔
عدالت کے باہر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا فیصلہ آئے گا۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سن لیے اور اس پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ ہی دیر میں سنادیا جائے گا۔
اس موقع پر صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ آیا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں پیش ہوں گے؟ تو اس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ موبائل فون میسر نہ ہونے کی وجہ کیپٹن (ر) صفدر سے تاحال کوئی رابطہ نہیں ہوا، تاہم اس حوالے سے وہ کیپٹن (ر) صفدر سے گفتگو کریں گے۔
انصاف کا جنازہ اٹھنے میں کچھ دیر باقی ہے، کیپٹن (ر) محمد صفدر
دوسری جانب سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد اور ایون فیلڈ ریفرنس میں نامزد کیپٹن (ر) صفدر کا کہنا تھا کہ انصاف کا جنازہ اٹھنے میں کچھ دیر باقی ہے، آخری رسومات عوام اپنے اپنے عقائد کے مطابق خود کرلیں۔
مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری بیان میں کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ جج نے لکھا ہے یا جرنیل کا تحریر کردہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوم انتظار کرے اور دیکھے انصاف کا جنازہ اٹھنے میں کچھ دیر باقی ہے۔
ادھر ایک طرف اسلام آباد کی احتساب عدالت سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کچھ دیر میں سنانے جارہی ہے تو وہی عدالت سے غیر حاضر کیپٹن (ر) صفدر اپنے آبادئی حلقے این اے 14 سے انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔
ذرائع کے مطابق کیپٹن (ر) صفدر انتخابی مہم کے سلسلے اپنے حلقہ انتخاب طورغر مانسہرہ میں موجود ہیں اور وہ وہاں ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
علاوہ ازیں کیپٹن (ر) صفدر نے تحصیل اوگی کے گاؤں برادڑاورڈہری میں کارکنوں سے ملاقاتیں کی، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی عدالت اللہ کی ہے، یقین ہے عوامی عدالت میں سرخرو ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنےخلاف کسی فیصلےسے خوفزدہ نہیں، جیلیں اور ہتھکڑیاں سیاستدانوں کا زیورہوتی ہیں، ہزارہ کا بیٹا مسلم لیگ (ن) اورنوازشریف پر قربان ہونے کے لیے تیار ہے۔
فیصلے کے بعد آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے، آصف کرمانی
احتساب عدالت کے باہر موجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما آصف کرمانی نے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے گا اور ہم اچھے کی امید رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا کہ جیسے ہی بیگم کلثوم نواز کی طبیعت ٹھیک ہوگی اور وہ ہوش میں آئیں گی تو وہ اور مریم نواز فوری طور پر وطن واپس آجائیں گے۔
آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ آنے دیں اس کے بعد ہی تفصیلی بات کی جائے گی۔
ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر
یاد رہے کہ گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔
مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔
بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8ستمبر2017 کوعبوری ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔
ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017 کو براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017 کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے تھے۔
26 اکتوبر2017 کو نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017 کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر2017 کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: حسن نواز، حسین نواز، اسحٰق ڈار کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کا فیصلہ
نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔
سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔
11 جون 2018 کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی۔
یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔