پاکستان

’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘

نقیب اللہ کو 3 بجکر 21 منٹ پر مقابلے میں قتل کیا گیا جبکہ راؤ انوار ایک بج کر 21 منٹ ہی اسکی تصدیق کرچکے تھے، مدعی مقدمہ
|

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں اہم تفصیلات سامنے آئی ہیں، جس کے مطابق نقیب اللہ محسود کا قتل اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا۔

شہر قائد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، اس دوران مقدمے کے مدعی صلاح الدین پہنور ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران صلاح الدین پہنور ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ نقیب اللہ کو ساتھیوں سمیت رات 3 بج کر 21 منٹ پر جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا جبکہ راؤ انوار کی جانب سے مقابلے سے 2 گھنٹے پہلے ایک بج کر 21 منٹ پر پریس کانفرنس میں نقیب اللہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کے قتل کی تصدیق کی گئی۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل: 13 مفرور ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی نئی ٹیمیں تشکیل

صلاح الدین پہنور نے کہا کہ مقابلہ بعد میں کیا گیا تو ملزمان کے قتل کی تصدیق پہلے کیسے کی جاسکتی ہے، راؤ انوار مقابلے کے وقت جائے وقوع پر موجود تھے۔

مقدمے کے مدعی نے کہا کہ راؤ انوار نے میڈیا نمائندوں کو فون کرکے جعلی مقابلے سے متعلق آگاہ کیا اورجائے وقوع پر بلایا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے اپنی تحقیقات میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ملزم قرار دیا جبکہ راؤ انوار اس سے پہلے بھی کئی جعلی مقابلے کرچکے ہیں، جس کی تصدیق پولیس حکام نے دوران تفتیش کی۔

اس موقع پر مقدمے کے مدعی نے عدالت سے درخواست کی کہ راؤ انوار اہم ملزم ہیں، ان کی ضمانت منظور نہ کی جائے۔

دوران سماعت مدعی مقدمے کے دلائل پر عدالت نے راؤ انوار کی پولیس مقابلے سے متعلق میڈیا سے گفتگو کی سی ڈی طلب کی، جسے عدالت میں بھی چلایا گیا۔

دوران سماعت تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ مفرور ملزمان کو تلاش کرنے کی کوشش جاری ہیں، مفرور ملزمان انتہائی با اثر ہیں، لہٰذا ان سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ تمام متعلقہ اداروں سے مفرور ملزمان کی سفری معلومات مانگی، جس کا کوئی جواب ابھی تک موصول نہیں ہوا جبکہ ہم نے تمام صورتحال سے عدالت کو آگاہ کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مفرور ملزمان کی تاحال عدم گرفتاری میں راؤ انوار کا اثر و رسوخ بھی کار فرما ہے، راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد لوگوں میں تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ13 جنوری کے بعد شہر میں انکاوئنٹرز، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کم ہوئی ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے راو انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو 10 جولائی کو سنایا جائے گا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو رواں سال جنوری میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

بعد ازاں 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔