سراج الحق
امیر جماعت اسلامی
پارٹی میں جان ڈالنے کی بڑی ذمہ داری!
تجزیہ کار زیغم خان کا تبصرہ
سراج الحق جماعت اسلامی کی سربراہی کرنے والے اسلامی جمعیت طلباء کے تیسرے طلبہ رہنما ہیں۔ 55 سالہ سراج الحق خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے دوسرے سربراہ ہیں۔ خیبرپختونخوا پارٹی کی ابھرتی قیادت کے لیے کسی حد تک اہم صوبہ اس لیے بنا کیونکہ افغان جنگ کی مناسبت سے یہ جگہ اہمیت کی حامل تھی۔
سراج الحق کے لیے سب سے بڑا درد سر اپنے پیش رو سید منور حسن کے دورِ قیادت کے عرصے میں پارٹی کو پہنچنے والا نقصان ہے۔ منور حسن کو 2014ء میں 4 سالہ دور مکمل کرنے کے بعد پارٹی قیادت سے ہٹادیا گیا. منور حسن نے عسکریت پسندی اور طالبان کی کھلی حمایت کی جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی۔
سراج الحق نے منور حسن کے برعکس قاضی حسین احمد جیسا عوامی انداز اپنانے کی کوشش کی۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے وہ سربراہ ہیں جنہوں نے 1987 سے لے کر 2009 تک پارٹی کو سیاسی میدان کے مرکز میں رکھا۔
اگرچہ سراج الحق ذہین، فصیح و بلیغ اور سرگرم ہیں لیکن وہ پارٹی میں دوبارہ جان ڈالنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں، خاص طور پر کراچی میں جہاں جماعت اسلامی نے ہمیشہ سے ہی ایم کیو ایم سے ووٹ بینک واپس حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ شاید ان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں، جماعت اسلامی 2018ء کے انتخابی میدان میں اترنے کے لیے ہچکچاہٹ کے ساتھ متحدہ مجلس عمل کے اتحاد میں شامل ہوگئی۔ ابتدا میں جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل میں شامل ہونے کے لیے اس لیے ہچکچاہٹ کا شکار تھی کیونکہ انہیں اتحاد پر غالب جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس کے رہنما فضل الرحمٰن کے حوالے سے خدشات لاحق تھے، جنہوں نے جماعت کو پہلے بھی چکما دے دیا تھا۔
اگرچہ ممکن ہے کہ سراج الحق اس بار بھی متحدہ مجلس عمل کی 2002 جیسی کامیابی کی توقع کر رہے ہوں مگر ان کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوسکتی ہے کہ پارٹی 2013ء کے مقابلے اس بار تھوڑے زیادہ ووٹ حاصل کرے۔
اہم معاملات پر موقف
- سراج الحق کہتے ہیں کہ اگر سینیٹ انتخابات میں اپنا ضمیر اور ووٹ بیچنے والے مجرم ہیں تو جنہوں نے انہیں خریدا وہ بھی اس جرم کے مرتکب ہیں۔
- وہ کہتے ہیں کہ صرف اراکین کو بے نقاب کرنا کافی نہیں بلکہ ان کے خریداروں کو بھی سامنے لانا چاہیے کیونکہ وہ بھی اتنے ہی مجرم ہیں.
- سراج الحق کا موقف ہے کہ قومیت کی بنیاد پر سیاست کرنے کا دور ختم ہوچکا، جو لوگ اب بھی قومیت کا کارڈ کھیلتے ہیں مستقبل کے انتخابات میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
- وہ مسلم ممالک کے سربراہان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے ملے ہوئے ہیں۔
- ان کا موقف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 12 مسلم ممالک کے سربراہان سے مشاورت کیے بغیر یروشلم کو تسلیم کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا، تاہم یہ 12 ممالک کون ہیں، اس کے بارے میں انہوں نے وضاحت نہیں کی۔
- ملک میں ’مدینہ جیسا ماڈل‘ لانے کے خواہش مند ہیں۔
- وہ کہتے ہیں کہ آئین سے آرٹیکل 62 اور 63 کو ختم کرنے کے بجائے اس کا اطلاق ججز، جنرلز اور بیوروکریٹس پر بھی ہونا چاہیے۔