عمران خان
پاکستان تحریک انصاف (بانی)
وزارتِ عظمیٰ کے منتظر عمران خان
تجزیہ کار اشعر رحمن کا تبصرہ
’وزیر اعظم اِن ویٹنگ‘ ('Prime Minister in waiting') کے لقب کا دعویدار 65 سالہ اقتدار کے آرزومند سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ ان کی شیروانی بھی تیار ہے۔
مگر انہوں نے یہ لقب حاصل کرنے کے لیے انہماک کے ساتھ کام بھی تو کیا ہے، مقابلہ چاہے کوئی بھی کروٹ لے مگر 2018 کے انتخابات پر ان کے اثر کو کسی طور پر کم نہیں سمجھا جاسکتا۔
انتخابات صرف انہی کی شخصیت کے گرد گھومتا نظر آتا ہے، اور ان افراد کے بھی جو ملک کے مختلف حصوں میں ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔
بعد از انتخابات کے عرصے میں بھی وہ اور ان کا ورثہ ملک کو آگے لے جانے والی ایک قوت کے طور پر نظر آئے گی۔
تحریک انصاف کے حامی 2018 میں منصوبے کے تحت پرجوش، پراعتماد، اٹل اور مقابلے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ جوش و ولولہ اگر کسی انقلابی کی نشانی نہیں تو اس اصلاح پسند کی تو ضرور ہے، جسے فرسودہ اور ان چاہے نظام کو کچلنا ہے۔
وہ لوگ جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں، یقیناََ بے صبری ہوگی، لیکن اس راہ پر چلتے ہوئے چند مشکلات سے مقابل ہونا تبدیلی کے لیے معمولی قیمت ہے۔
جب انتخابات کا وقت آئے، تب ان کا لیڈر کے لیے اس ابھرتے ہوئے ’نظریاتی‘ جم غفیر کو پرانی ’الیکٹیبل‘ شخصیات کی موجودگی میں ایک مؤثر انتخابی گاڑی میں بدلنے کے مختلف طریقوں کی تلاش ضروری ہوجاتی ہے، جی ہاں وہی پرانی الیکٹیبل شخصیات، جنہیں پارٹی میں اس لیے شامل کرلیا گیا ہے، تاکہ نظام میں داخل ہوا جاسکے اور پھر انہی الیکٹیبلز کی جانب سے زندہ رکھے گئے نظام میں بہتری لاسکیں۔
عمران خان ان لوگوں کی طویل فہرست میں سب سے نئے ہیں، جو صرف ایک بار اس نظام کو زندہ رکھنے کا جرم کرنے کے لیے تیار ہیں، ان کی اپنی لکھی ہوئی کہانی کے مطابق وہ اس کے بعد پچھتانے والے ہیں اور اس ملک اور اس کے عوام کو لاحق تمام مسائل سے چھٹکارہ دلوانے والے ہیں۔
یہ راگ کافی پرکشش ہے، قوی امکان ہے کہ عمران ووٹوں کے طوفان سے ٹکرانے والے ہیں اور یوں شاید وہ فخریہ انداز میں چلنے اور بابرکت جگہوں پر ننگے پیروں کے ساتھ اپنی حاضریوں کو درست قرار دے سکیں۔
انہیں خود کو دیا گیا ایک کردار ادا کرنا ہے، بلکہ وہ واحد بڑی وجہ بھی رہنا ہے، جو ان کے اور ملک کو چلانے کی عادت میں بہترین ہوچکے لوگوں کے درمیان مقابلے کا باعث بنے گی۔
اس طرح عمران بہت پہلے ہی اپنا توقع سے زیادہ اپنا کردار ادا کرچکے ہیں۔
اہم معاملات پر موقف
عمران خان نے خود کو خاص طور پر اگر مالی بدعنوانی کی بات کی جائے تو ایک بے داغ شہرت کے حامل شخص کے طور پر عوام میں منوایا ہے، انہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 2014 میں دارالحکومت اسلام آباد میں 126 دن طویل دھرنا دیا اور نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا، تاہم پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد اپنے دھرنے کے اختتام کا اعلان کیا، جب پاناما پیپرز سامنے آئے، تو عمران خان نے ایک دفعہ پھر وزیرِ اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا۔
عمران نے مستقل امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کی ہے اور 2012 میں انہوں نے حملوں کے خلاف احتجاج کے طور پر جنوبی وزیرستان تک لانگ مارچ بھی کیا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ ماضی میں غیر ملکی امداد کی مخالفت کرتے رہے ہیں جبکہ وہ ٹیکس نظام میں اصلاحات اور جاگیرداری نظام کے خاتمے کے حامی ہیں۔
عمران خان وفاق کے زیر انتظام علاقوں فاٹا میں فوجی آپریشن کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں، جبکہ وہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی بات بھی کرتے رہے ہیں۔
بسا اوقات ‘سیاست سے نابلد’ اور سخت گیر کہلانے والے عمران خان کو طالبان کا حامی بھی قرار دیا جاتا رہا ہے، بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں انہوں نے قبائلی علاقوں میں موجود جرگہ نظام کی تعریف کی، جسے افغانستان میں طالبان بھی نافذ کر چکے ہیں۔
عام طور پر ایک ‘صاف’ سیاستدان قرار دیے جانے والے عمران خان اکثر اوقات میرٹ پر مبنی نظام اور نظامِ انصاف کے قیام کا حامی ہونےکا دعویٰ کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سربراہ قومی یکجہتی پر بھی زور دیتے ہوئے لسانی سیاست کے خاتمے پر زور دیتے ہیں۔
کچھ مواقع پر ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ 2013 میں عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم نواز شریف کو نکالنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازش میں شریک تھے۔
حال ہی میں انہوں نے فوج پر الزام عائد کیا کہ اس نے 2013 میں نواز شریف کو انتخابات جیتنے میں مدد دی تھی جس کی وجہ سے وہ تیسری دفعہ وزیرِ اعظم بن پائے۔