Election2018

مصطفیٰ کمال

پاک سرزمین پارٹی
پاک سر زمین پارٹی

تجزیہ کار احمد یوسف کا تبصرہ:

ایک معصوم باغی

1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بڑی ہونے والی مہاجر نوجوان نسل کے لیے مصطفیٰ کمال ایک زبردست مثال تھے کہ اگر کسی کو موقع ملے تو وہ کتنا آگے تک جا سکتا ہے۔ ایک کچی آبادی کے رہنے والے، ٹیلی فون آپریٹر، اور پھر کراچی شہر کے ناظم (میئر)۔ مگر وہ اتنا بلند صرف اس لیے جا سکے کیوں کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور الطاف حسین کے ساتھ وابستہ تھے۔ اور الطاف حسین کے بغیر یہ دونوں کچھ بھی نہیں ہیں۔

مصطفیٰ کمال کے الطاف کے ظلم کے خلاف باغی کے طور پر ابھرنے کے پیچھے ظاہر ہے کہ ایک تاریخ ہے۔ جب کمال کا بطور میئر وقت مکمل ہوا تو کمال نے آہستگی سے مگر واقعتاً پارٹی کے ساتھ اپنے راستے جدا کر لیے۔ وہ انٹرویوز دینے سے بھی کترانے لگے، اور انہوں نے اپنے اور پارٹی سربراہ کے درمیان ہونے والے معاملات کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا۔

صرف اپنے واپس آنے کے بعد ہی انہوں نے اپنی خاموشی توڑی کہ انہوں نے بغاوت کیوں کی تھی، اور اس بات پر افسوس کیا کہ وہ الطاف کی اخلاقی کرپشن کا حصہ رہے۔ انہوں نے 'مہاجر' شناخت کی مذمت کی اور اس کے بجائے خود کو 'پاکستانی' شناخت کے ساتھ منسلک کر لیا۔

مگر اپنی واپسی کے بعد سے اب تک کمال اپنی پارٹی کو مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے سابق ایم کیو ایم کارکنوں کے لیے ایک محفوظ گھر سے زیادہ کچھ نہیں بنا پائے ہیں۔ حقیقت میں ان کی جماعت پاک سرزمین پارٹی اب بھی متحدہ قومی موومنٹ کی طرح ایک مستقل جماعت کی حیثیت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ پی ایس پی کی صفوں میں موجود نظریاتی کارکنوں کی موجودگی کے باوجود ایسا ہے۔

انتخابات سے پہلے کچھ بنیادی سطح کے باغی واپس ایم کیو ایم پاکستان چلے گئے ہیں، مگر پی ایس پی کے پاس ابھی بھی کارکنوں کی ایک مضبوط بنیاد ہے جو محلوں اور مارکیٹوں کو پی ایس پی کے بینروں اور جھنڈوں سے سجانے میں کامیاب رہی ہے۔

مگر کمال کی مہم پر عوامی ردِ عمل ابھی بھی زیادہ پرجوش نہیں ہے۔ پی ایس پی کی حکمتِ عملی صرف ان حلقوں پر توجہ دینا ہے جہاں انہیں لگتا ہے کہ ان کے جیتنے کا زیادہ امکان ہے۔ اور ان علاقوں میں کمال کی پارٹی اسی شخص کا عکس بنی ہوئی ہے جس کے وہ مبینہ طور پر خلاف ہیں۔

اہم امعاملات پر مؤقف