سیارچے یا ایسٹیرائڈز کیا ہیں اور ان کا عالمی دن منانے کا مقصد کیا ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کی سطح پر زندگی کی ابتداء تقریباً 3.5 ارب سال پہلے ہوئی، کرہ ارض پر زندگی کی ابتداء اور بتدریج ارتقاء سے متعلق متعدد نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ مستند چارلس ڈراون کے نظریۂ ارتقاء کو سمجھا جاتا ہے مگر عوامی اور کم فہم حلقوں میں یہی نظریہ سب سے زیادہ لعن طعن کا شکار بھی ہوا ہے۔
ارتقاء کے نظریات چاہے ایک دوسرے سے کتنے ہی متصادم رہے ہوں اس امر پر زیادہ تر سائنسدان متفق ہیں کہ لگ بھگ 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے زمین پر ڈائنو سارز جیسے عظیم الجثہ حیوانات کا راج تھا اور صرف یہی نہیں اس دور میں زمین پر پائے جانے والے دیگر چرند پرند و نباتات بھی جسامت اور بناوٹ میں یکسر مختلف تھے۔
سائنس دانوں کو دنیا کے مختلف حصوں سے ایسے آثار قدیمہ ملے ہیں جس سے ان کے اس نظریے کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس دور کا اختتام زمین کے ساتھ کسی بڑے حجم کے شہاب ثاقب ( میٹی رائڈ) یا ایسٹی رائڈ ( سیارچے ) کے ٹکرانے کے باعث ہوا۔
یہ تصادم اس قدر شدید رہا ہوگا کہ اس سے نہصرف ڈائنو سارز کی مختلف انواع ہمیشہ کے لیے معدوم ہوگئیں بلکہ اس دور میں زمین پر بسنے والی دیگر 75 فیصد بری و بحری سپی شیز (نوع) کا بھی مکمل طور پر صفایا ہوگیا، اس کے علاوہ سیارچے کے پوری طاقت کے ساتھ دھماکے سے پھٹنے کے بعد زمین کے ماحول اور آب و ہوا میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں واقع ہوئیں کیوں کہ ہم آج دیکھتے ہیں کہ کرۂ ارض کے کسی بھی علاقے میں محض ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے سورج کی روشنی کئی کئی ماہ تک رکی رہتی ہے جس سے اس علاقے کا درجہ حرارت بتدریج کم ہونا شروع ہو جاتا ہےاور وہاں کی آبادی ہی نہیں نباتات و حیوانات بھی براہ راست گرد و غبار اور گاڑھے دھویں کی زد پر ہو تے ہیں۔
درحقیقت آتش فشاں کے پھٹنے اور سیارچے کے تصادم کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اول الذکر سے صرف ایک خاص علاقہ ہی متاثر ہوتا ہے جب کہ سیارچے سے تصادم جتنا شدید ہوگا اس سے اتنے ہی وسیع علاقے میں تباہی پھیلے گی۔
تاریخی اور سائنسی حوالوں کے مطابق تقریبا 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے جدید میکسیکو کے سمندری علاقے چک سولب کے قریب 10 سے 15 کلو میٹر قطر کا ایک سیارچہ ٹکرایا تھا، جس کے نتیجے میں وہاں 150 کلو میٹر بڑا اور 20 کلومیٹر گہرا گڑھا پڑا۔